20.5 C
Islamabad
پیر, فروری 24, 2025
ہومقومی خبریںاقوام متحدہ کے نظام کے تحت عالمی موسمیاتی رسک انڈیکس بنایا جانا...

اقوام متحدہ کے نظام کے تحت عالمی موسمیاتی رسک انڈیکس بنایا جانا چاہئے،  وزیراعظم شہباز شریف

- Advertisement -

شرم الشیخ ۔8نومبر (اے پی پی):وزیراعظم محمد شہباز شریف نے ترقی پذیر اور کمزور ممالک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے شفاف طریقہ کار کے تحت موسمیاتی فنانس کے نئے، اضافی اور پائیدار وسائل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ موسمیاتی تباہی کی فرنٹ لائنز پر موجود افراد کی حقیقی بحالی کی ضروریات کو برقرار رکھنے کے لئے موجودہ مالیاتی فرق بہت زیادہ ہے، اقوام متحدہ کے نظام کے تحت ایک عالمی موسمیاتی رسک انڈیکس بنایا جانا چاہئے، یہ اب یا کبھی نہیں والا معاملہ ہے، پیرس معاہدے میں بیان کردہ طریقہ کار سے بھی زیادہ ذمہ داریوں کا احترام ہونا چاہئے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے یو این کلائمیٹ چینج کانفرنس کاپ 27 کے سربراہ اجلاس سے خطاب میں قومی نقطہ نظر پیش کرتے ہوئے کیا۔

وزیراعظم نے کاپ 27 کانفرنس کی میزبانی پر مصر کے صدر عبدالفتح السیسی کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ کوپ 27 واحد پلیٹ فارم ہے جہاں نسل انسانی کی بقا کو ایک مقصد کے طور پر مدنظر رکھا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا فورم بھی ہے جہاں کمزور ممالک اپنا معاملہ امیر اور وسائل کے حامل ممالک کے سامنے پیش کر سکتے ہیں تاکہ انصاف کا مشترکہ مقصد حاصل ہو اور ایک ایسی دنیا میں ضروری پالیسیوں کی بحالی کے لئے ایک روڈ میپ اپنایا جا سکے جو ہماری صلاحیت سے زیادہ تیزی کے ساتھ بحالی میں مدد دے۔

- Advertisement -

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تباہ کن سیلاب سے 33 ملین افراد متاثر ہوئے جن میں آدھے سے زیادہ خواتین اور بچے شامل ہیں۔ ملک کے جنوبی علاقوں میں اوسطاً سے زائد سات گنا بارش ہوئی، ہم پگھلتے ہوئے گلیشیئرز سے ہونے والی تباہی سے بچنے کیلئے کوشاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب کے باعث ملک کے شمال میں 8 ہزار کلو میٹر سے زائد سڑکیں تباہ ہوئیں، 3 ہزار کلو میٹر ریلوے ٹریک کو نقصان پہنچا اور سینکڑوں پل تباہ ہوئے اور کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم آہستہ آہستہ لوگوں کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ سیلاب کے باعث ملک میں 30 ارب امریکی ڈالر کا نقصان ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کا کاربن گیسوں کے اخراج میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے، پاکستان کے لئے ترجیحات کبھی بھی واضح نہیں رہیں۔ انہوں نے کہا کہ فنانسنگ اور ٹائم لائن دونوں لحاظ سے موافقت کے عالمی ہدف کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔ ہم نے تاحال موافقت اور مالیات کے حوالے سے وعدوں میں توازن نہیں دیکھا، موسمیاتی تباہی کی فرنٹ لائنز پر موجود افراد کی حقیقی بحالی کی ضروریات کو برقرار رکھنے کے لئے موجودہ مالیاتی فرق بہت زیادہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ نقصانات کو پورا کرنے کا معاملہ کاپ 27 کے بنیادی ایجنڈے کا حصہ بنانا ہوگا تاکہ ان لوگوں کی انسانی ضروریات کو پورا کیا جا سکے جو قرضوں کی وجہ سے عوامی مالی امداد کے بحران میں پھنسے ہوئے ہیں اور پھر بھی انہیں اپنے طور پر موسمیاتی آفات کے لئے فنڈز فراہم کرنے پڑ رہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ کلائمیٹ فنانس کو واضح طور پر نئے، اضافی اور پائیدار وسائل کے طور پر ایک شفاف طریقہ کار کے ساتھ بیان کیا جانا چاہئے جو ترقی پذیر اور کمزور ممالک کی ضروریات کو اس رفتار اور پیمانے کے ساتھ پورا کرتا ہے جس کی ضرورت ہے۔

اب اس بات پر مکمل وضاحت ہونی چاہئے کہ موسمیاتی منتقلی اور ترقیاتی مالیات کا کتنا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2009ء میں کوپن ہیگن میں کوپ 15 میں 2020ء تک سالانہ 100 ارب ڈالر فراہم کرنے کے وعدے کئے گئے تھے لیکن وہ ابھی تک پورے نہیں ہوئے۔ اقوام متحدہ کے نظام کے تحت یو این ایف سی سی سی کے تمام فریقین کا ایک عالمی موسمیاتی رسک انڈیکس بنایا جانا چاہئے۔ اس انڈیکس میں سب سے زیادہ کمزور ممالک کے منصوبوں کو کلائمیٹ فنانس کیلئے ترجیح اور تیزی سے منظوری ملنی چاہئے۔

وزیراعظم نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے بوجھ کی واضح تقسیم کے فارمولے کی بحالی کی ضرورت ہے۔ پیرس معاہدے میں بیان کردہ طریقہ کار سے بھی زیادہ ذمہ داریوں کے وعدے کا احترام کیا جانا چاہئے۔ پاکستان کی این ڈی سیز میں 2030ء کے لئے خواہشات بہت سے ممالک سے پہلے ہی زیادہ ہیں لیکن ہم اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب تک صلاحیتوں، مالیات اور ٹیکنالوجی کے بہائو میں تبدیلی نہیں آتی، شمال اور جنوب کے درمیان معاملات طے نہیں ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ حالیہ سیلاب کے دوران ہم نے گندم، پام آئل، تیل و گیس برآمد کیا۔ ہم نے اپنے تمام وسائل کا رخ لاکھوں سیلاب متاثرین کی مدد کے لئے موڑ دیا ہے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے لاکھوں گھرانوں کو امداد فراہم کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ موسم کا سرما کا آغاز ہو چکا ہے، ہمیں سیلاب متاثرین کو شیلٹر، میڈیکل ٹریٹمنٹ اور خوراک فراہم کرنی ہے اس کے لئے ہم اربوں روپے خرچ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کی جانب سے مشکل وقت پر امداد پر شکرگزار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کو ہماری مشکلات کو سمجھنا چاہیے۔ دیگر ممالک بھی ایسی موسمیاتی یا انسان ساختہ قدرتی آفات کا شکار ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے انفراسٹرکچر کی بحالی اور تعمیر نو کے لئے قرضوں کی بجائے اضافی فنڈ کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ اس کوپ کے انعقاد سے کنونشن اور پیرس معاہدے کے اہداف میں حصول کے لئے مشترکہ بنیاد میسر آئے گی۔ یہ اب یا کبھی نہیں کا معاملہ ہے اور ہمارے لئے واقعی کوئی دوسرا کرئہ ارض نہیں ہے۔

Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=336434

- Advertisement -
متعلقہ خبریں
- Advertisment -

مقبول خبریں