اسلام آباد۔8جنوری (اے پی پی):الجزیرہ کے” لگا آزاد میڈیا کے دام، صحافت صرف مودی سرکار کے نام” کے عنوان سے آرٹیکل میں مودی سرکار کے آزادی صحافت اور جمہوریت کا گلہ گھونٹنے کا آخری وار زیر بحث آ گیا۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے حکمران، آزادی صحافت کے سب سے بڑے خریداربن گئے ہیں۔
الجزیرہ آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ معروف صحافی رویش کمار کا این ڈی ٹی وی سے استعفی نے بھارت میں ختم کئے جانے والے آزاد میڈیا کا ایشو اجاگر کر دیا۔ بڑے سرمایہ دار آزادی صحافت اور جمہوریت کا گلہ گھونٹ رہے ہیں۔ دنیا کے تیسرے امیر ترین شخص گوتم اڈانی نے مودی حکومت کے خلاف مضبوط آواز این ڈی ٹی وی کو خرید لیا۔ گوتم اڈانی نریندر مودی کا قریبی ساتھی ہے اور مودی کے دور اقتدار میں اس کی دولت میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔ آرٹیکل میں کہا گیا کہ گوتم اڈانی کی دولت 2014 ء کی 7 ارب ڈالر سے 110 ارب ڈالر تک جا پہنچی ہے۔
اڈانی کے ذریعے مودی نے بھارتی میڈیا کی آخری بڑی آزاد آواز پر بھی کنٹرول حاصل کر لیا۔ 25 سال سے این ڈی ٹی وی سے وابستہ اور حکمرانوں پر بے خوف تنقید کے حوالہ سے معروف رویش کمار، اڈانی کے مالک بننے پر مستعفی ہوئے۔ رویش کمار کے مطابق جس سرمایہ دار کی کامیابی حکومتی کنٹریکٹس کے مرہون منت ہو وہ حکومت پر کیسے تنقید کرے گا؟۔ میرے لیے واضح ہے، میں ایسے میڈیا ادارے کو اب چھوڑ جائوں۔ صحافی رویش کمار نے ہی گودی میڈیا کی اصطلاح متعارف کرائی تھی۔
آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ گودی میڈیا کا مطلب تمام میڈیا مودی کی گود میں ہے۔ کئی بڑے میڈیا چینلز پہلے ہی بی جے پی سے منسلک سیاسی خاندانوں کی ملکیت ہیں۔ آرٹیکل میں کہا گیا کہ مودی حکومت کے میڈیا پر غلبے سے دنیا بھر میں آزادی اظہار پر چند سرمایہ کاروں کے کنٹرول کے اہم سوالات نے جنم لیا۔ آزاد میڈیا پر حکمرانوں، سرمایہ داروں کا کنٹرول صرف مودی حکومت نہیں، دنیا بھر کا مسئلہ بن چکا۔ آرٹیکل میں کہا گیا کہ امریکہ، برطانیہ میں بھی میڈیا کا چند ارب پتیوں کے ہاتھ لگنا ماڈرن ڈیموکریسی کے لیے خطرہ سمجھا جا رہا۔ اچھی صحافت کے لییپیسہ بھی ضروری مگر اسے آزادی بھی چاہیے۔