امریکہ، پاکستان ٹریڈ اور انوسٹمنٹ باڈی کے اجلاس میں زراعت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں سات سال بعد بریک تھرو کے خواہاں ہیں، وفاقی وزیر تجارت سیّد نوید قمر کا غیرملکی خبر رساں ایجنسی کو انٹرویو

107

اسلام آباد۔22فروری (اے پی پی):وفاقی وزیر تجارت سیّد نوید قمر نے کہا ہے کہ امریکہ، پاکستان ٹریڈ اور انوسٹمنٹ باڈی کے وزارتی سطح کے اجلاس میں زراعت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں تقریباً سات سال بعد بریک تھرو کے خواہاں ہیں۔ جمعرات کو یو ایس پاکستان ٹریڈ اینڈ انویسٹمنٹ فریم ورک ایگریمنٹ (ٹیفا) کے تحت امریکی تجارتی نمائندہ کیتھرین ٹائی اور دیگر سینئر امریکی حکام سے ملاقات کریں گے۔

ان خیالات کا اظہار وفاقی وزیر نے غیرملکی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے ساتھ ایک انٹرویو میں کیا ۔انہوں نے کہا کہ یہ ملاقات دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تجارتی تعلقات جو ابھی تقریباً 12 ارب ڈالر ہیں کو مزید مضبوط کرے گی جو حالیہ برسوں میں سیاسی تناؤ کی وجہ سے کھچاؤ کا شکار تھے۔

انہوں نے کہا کہ سالانہ اجلاس ہونے والے تھے، لیکن کسی نہ کسی وجہ سے، وہ اتنے عرصے سے پس پشت تھے، یہ ضروری ہے کہ ہم بات کرنا شروع کریں۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے ایسے شعبے ہیں جہاں ہمیں کچھ پیش رفت کی توقع ہے۔ اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات، جو کبھی قریبی اتحادی تھے، کچھ سالوں کے ٹھنڈے تعلقات جن کی زیادہ تر وجہ افغانستان میں طالبان کی پاکستان کی مبینہ حمایت کے خدشات ہیں کے بعد اب گرم ہونا شروع ہوئے ہیں۔ انہوں نے طالبان کی مبینہ حمایت کے متعلق کہا کہ پاکستان اس حمایت کی تردید کرتا ہے۔

نوید قمر نے کہا کہ پاکستان امریکہ کو آم کی برآمدات بڑھانے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر پروگرامنگ میں سموتھ تجارت کو یقینی بنانے کے لیے کوشاں ہے جبکہ امریکہ گائے کے گوشت اور سویابین کی برآمدات کو بڑھانا چاہتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جب ہم تجارت کے بارے میں بات کرتے ہیں، ہم پورے سپیکٹرم کے بارے میں بات کر رہے ہیں لیکن ہم ان چیزوں پر اس لیے توجہ مرکوز کر رہے ہیں کیونکہ یہیں سے چیزیں ہونا شروع ہو جائیں گی۔

پاکستان آئی ٹی اور فارماسیوٹیکلز پر خصوصی توجہ کے ساتھ مزید امریکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کی بھی امید رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ ایک ملک کے لیے کھلا میدان ہو۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ کھلا مسابقتی ماحول ہونا چاہیے۔ سیّد نوید قمر نے کہا کہ پاکستان کو امریکی سپلائی چینز کو متنوع بنانے میں مدد کے لیے اچھی جگہ دی گئی جو کوویڈ 19 سے پہلے چین پر انحصار کرتی تھیں لیکن اس نے دوسرے علاقائی سپلائرز کی طرف رخ کرنا شروع کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان وسطی ایشیا کے لیے گیٹ وے کے طور پر کام کر سکتا ہے۔