حضرت خدیجہؓ جیسی ہستیوں کے کارناموں کو دنیا کے سامنے لانے کی ضرورت ہے ،سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف

246
امم المومنین حضرت خدیجہ نے اپنی تمام دولت اسلام کے پیغام کے لئے وقف کی،ایسی ہستیوں کے کارناموں کو دنیا کے سامنے لانے کی ضرورت ہے،سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف

اسلام آباد۔1اپریل (اے پی پی):سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے کہا ہے کہ بدقسمتی سے اسلام کے حسن اور امن پسندی پر پردے ڈال دیئے گئے اور مخصوص مقاصد کیلئے اسلام کو پوری دنیا میں دہشت گردی سے جوڑ دیا گیا،آج اس امر کی ضرورت ہے کہ حضرت خدیجہؓ جیسی ہستیوں کے کارناموں کو دنیا کے سامنے لایا جائے۔ان سے جڑے آثار کو اجاگر کیا جائے اور مزارات مقدسہ و دیگر مقامات جو ان ہستیوں کی یاد دلاتے ہیں ان کو دنیا کے سامنے لایا جائے۔

ہفتہ کو یہاں امم المومنین حضرت خدیجہؓ الکبری کی برسی کے موقع پر منعقدہ ملکہ العرب کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کانفرنس کے منتظمین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ میں یہ بھی امید کر تا ہون کہ اس کانفرنس کا انعقاد ناصرف مشاہیر اسلام کے کارناموں اور آثار کی بقا ء کے لئے کی جانے والی کوششوں میں مدد گار ثابت ہو گا بلکہ اس سے ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے شخص کو ایک مثبت پیغام جائے گا اور ہمارےمعاشرے میں پائی جانے والی مایو سیوں اور عدم برداشت کے رویوں میں یقینی کمی کا باعث ہو گا۔

سپیکر نے کہا کہ ہم سب مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت محمد ﷺ کی ذات بابرکات ہی کائنات کی تخلیق کی وجہ تھی اور فخر و مباہات آپ کی ذات کے قرب اور آپ کے لئے دی جانے والی قربانیوں کا عکس ہے۔جب ہم سیر ت پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں آپ ﷺ کےخاندان ، صحابہ کرامؓ اور امہات المومنینؓ کی ذوات مقدسہ میں جلیل القدر ہستیاں نظر آئی ہیں جو روشنی کے منا رے ہیں اور جب عہد رسالت کے ابتدائی انتہائی کٹھن وقت کو دیکھتے ہیں تو وفاداری، ثابت قدمی ، ایثار اورقربانی میں بے مثل شخصیت حضرت بی بی خدیجہ الکبری ؓ کی نظر آتی ہے۔انہوں نے کہا کہ حضرت بی بی خدیجہؓ کو تجارت اپنے والد سے ورثہ میں ملی جسے آپ نے کامیابیوں کی عظیم منزلوں تک پہنچایا۔ عرب آپ کو عظیم خدیجہؓ اورقریش کی شہزادی کے لقب سے جانتے تھے۔

جب عرب میں بتوں کی پرستش عام تھی اس وقت بھی تاریخ آپ کی توحید پرستی اور پاکیزگی کی گواہی دیتی ہے۔ آپ کی شخصیت خواتین کے لئے وہ روشن چراغ ہے جو زندگی کے ہر مرحلے میں رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ ہم آپ کی زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ پہلا حصہ جو حضور اکرم حضرت محمدﷺ کے ساتھ عقد سے پہلے کا ہے اور دوسرا عقد کے بعد کا ہے۔اگر ہم پہلے حصے کو دیکھتے ہیں تو تاریخ عرب میں آپ ایک کا میاب ترین خاتون تاجر کے طورپر جانی جاتی ہیں۔ آپ کی دولت اور ثروت کے متعلق سیرت کی کتابوں میں تو بہت کچھ ملتاہی ہے ،غیر مسلم محققین نے بھی آپ کی قائدانہ اور تجارت میں حاصل کامیابیوں کا اعتراف کیا۔

نیو یارک یونیورسٹی میں مشرق وسطیٰ کی تاریخ کے پروفیسر رابرٹ ہالینڈ کہتے ہیں کہ ان کی شخصیت کی تفصیلی تصویر پیش کرنا مشکل ہے۔انہوں نے کہا کہ خدیجہؓ انتہائی مضبوط ارادوں کی مالک اور آزادانہ فیصلے کرنے والی خاتون تھیں۔ اگر چہ آپ ایک کامیاب تاجر کی بیٹی تھیں لیکن اس کاروبار کو آپ نے وسیع کارو باری سلطنت میں تبدیل کر دیا۔آج اسلام میں خواتین کے حقوق پر کافی بحث ہوتی ہے اور لوگ اسے خواتین کے استحصال سے جوڑتے ہیں لیکن اگر بی بی خدیجہؓ آج کے دور میں ہو تیں تو وہ اسے اسلام کی روح کے مطابق نہ گردانتیں اور اگر ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جاتی تو وہ خاموش نہ رہتیں۔ وہ آگے چل کر کہتی ہیں کہ یہ بات قابل افسوس ہے کہ مغرب کی اکثریت ان کے نام تک سے واقف نہیں ۔

پروفیسر ہالینڈ کے مطابق جس طرح تاریخ میں آپ کا ذکر ہے وہ بہت متاثر کن ہے اور انہیں رسول اللہ ﷺ کی بہترین رفیق قرار دیا گیا ہے ۔ تاریخ میں ملتا ہے کہ آپ نے حضور اکرم ﷺ سے درخواست کی کہ آپؓ کے تجارتی قافے کی قیادت کریں جو انہوں نے اپنے چچا حضرت ابو طالب کے مشورے سے قبول کر لی۔اس تجارت میں بی بی خدیجہ ؓ کو توقع سے دوگنا منافع ہوا، اور اسی سفر میں آنحضرت ؐ کو اہل عرب نے صادق اور امین کا لقب دیا۔ بی بی خدیجہ ؓ کے غلام میسرہ نے آپﷺ کے اخلاق و کردار کی اتنی تعریف کی کہ بی بی ؓ نےاپنی سہیلی کے ذریعے آپ کو نکاح کا پیغام بھیجا۔ آپؓ نے اپنی تمام دولت اسلام کے لئے صرف کی اور اعلان رسالت سے قبل ہی آپؐ کی سیرت پر عمل پیرا تھیں۔

یحییٰ ابن عفیف کا واقعہ ترمذی شریف اور امام احمد بن حنبل کے حوالے سے تاریخ میں ملتا ہے ۔ آپ کی وفاداری نے ہمیشہ حضور اکرمﷺ کو حوصلہ دیا اور شعب ابی طالب میں فاقوں پر فاقے برداشت کرنے کے باوجود کبھی آپ نے اپنے شوہر سے شکوہ نہیں کیا۔ شعب ابی طالب کی سختیوں نے آپ کو انتہائی کمزور کر دیا تھا اور مکہ واپس آنے کے بعد آپ کی زندگی نے وفا نہ کی اور بعثت کے دسویں سال یعنی 619 عیسوی میں خالق حقیقی سے جاملیں۔انہوں نے کہا کہ مجھے مورخ بیٹنگ ہیوس کی بات بہت پسند آئی جس میں انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ مغرب کی اکثریت آپؓ کے نام سے بھی واقف نہیں۔ میں سمجھتا ہوں اس میں امت مسلمہ کی مجموعی کو تاہی شامل ہے کہ اسلام کے حسن اور امن پسندی پرتو پردے ڈال دیئے گئے اور مخصوص مقاصد کیلئے اسلام کو پوری دنیا میں دہشت گردی سے جوڑ دیا گیا۔ آج اس امر کی ضرورت ہے کہ ان ہستیوں کے کارناموں کو دنیا کے سامنے لایا جائے۔ ان سے جڑے آثار کو اجاگر کیا جائے اور مزارات مقدسہ و دیگر مقامات جو ان ہستیوں کی یاد دلاتے ہیں ان کو دنیا کے سامنے لایا جائے۔ میں آپ کی ان کوششوں کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور اس سلسلے میں کی جانے والی کوششوں کے لئے اپنے ہر قسم کے تعاون کا یقین دلاتا ہوں۔