اسلام آباد۔8مارچ (اے پی پی):وزیراعظم کے مشیر برائے داخلہ و احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ انتخابات میں کرپشن روکنا الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے، یوسف رضا گیلانی کی سینٹ الیکشن میں کامیابی پر ہمیں سنجیدہ تحفظات ہیں، یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے اور سندھ کے ایک وزیر ووٹ خریدنے میں ملوث تھے، علی حیدر گیلانی پر الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت لالچ دینے، ووٹ خریدنے کی کوشش کرنے جیسے سنجیدہ الزامات عائد ہوتے ہیں، سینٹ میں ضمیر کے مطابق ووٹ پڑا ہوتا تو ہم قبول بھی کرتے، خفیہ بیلٹ میں ووٹوں کی خرید و فروخت کا سدباب نہیں کیا گیا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے پی ٹی آئی کی درخواست کو سماعت کے لئے منظور کرنا خوش آئند اقدام ہے، حکومت کو سینٹ الیکشن میں یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کے حوالے سے تحفظات ہیں، یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے علی حیدر گیلانی کی ویڈیوز منظر عام پر آئیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کرپٹ پریکٹسز میں ملوث ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنی رائے میں بہت اہم بات کی تھی، سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ سینٹ الیکشن میں خفیہ رائے شماری دائمی نہیں ہے، اس کے علاوہ سپریم کورٹ الیکشن کمیشن سے کہا کہ سینٹ الیکشن میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لئے ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے تاکہ الیکشن کے عمل میں کرپٹ پریکٹسز نہ ہوں، اس کے لئے حکومت بھی تعاون فراہم کرنے کو تیار تھی اور کابینہ کا ایک پانچ رکنی وفد الیکشن کمیشن گیا اور الیکشن کمشنر سمیت الیکشن ٹیم کے ممبران سے ملاقات کی اور ان کو کہا کہ اگر وہ سپریم کورٹ کی رائے پر من و عن عمل کرنا چاہتے ہیں تو حکومت سینٹ الیکشن کے حوالے سے ٹیکنالوجی اور دیگر معاونت فراہم کر سکتی ہے، اس پر الیکشن کمیشن نے کہا کہ ان کو چار ہفتے کا وقت درکار ہے، اس بات پر بھی حکومت کو تحفظات تھے، اس کے بعد وہی ہوا جس پر حکومت کو اعتراض تھا اور نتیجے کی شکل میں وہی سب کچھ سامنے بھی آ گیا۔
بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا کہ اگر کسی رکن نے ضمیر کی آواز پر ووٹ دوسری جماعت کے امیدوار کو دیا تو اس پر بات کی جا سکتی ہے لیکن یہاں ثبوت کسی اور جانب جا رہے ہیں، پہلی چیز وہ ویڈیو ہے جس میں سینٹ الیکشن کے امیدوار کا بیٹا ووٹ خریدتے ہوئے یا پیسوں کی بات کرتا ہوا نظر آ رہا ہے، دوسری وہ ویڈیو یا آڈیو جس میں سندھ کا ایک وزیر کچھ ممبران کے ساتھ بات کر رہا ہے ، ان کو پیسے آفر کر رہا ہے اور ان کو ٹھیکے دینے کی بات کر رہا ہے، اس طرح یہ لوگ الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت جرم کے مرتکب ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ویڈیو میں جو لوگ موجود تھے ان کی طرف سے تصدیق آ گئی ہے اور انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ وہ ویڈیو میں موجود تھے، اس کے بعد میں نہیں سمجھتا کہ درحقیقت الیکشن کمیشن قانونی طور پر اس ویڈیو اور ویڈیو میں موجود لوگوں کے بیانات کو نظرانداز کر سکتا ہے، پوری قوم الیکشن کمیشن کی جانب دیکھ رہی ہے، الیکشن کمیشن کو کل کی سماعت میں بہت غور سے سارے معاملے کو دیکھنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمان سب سے بڑا قومی سلامتی کا ادارہ ہوتا ہے، اگر پارلیمان میں سے کچھ ارب روپے خرچ کر کے ممبران خریدے جا سکتے ہیں تو یہ ایک بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے، قومی سلامتی کے راز ایسے لوگوں کے سامنے کیسے رکھے جا سکتے ہیں، جو پیسہ دے کر ایوان میں آتے ہیں ان کے سامنے قومی سلامتی کے راز کیسے رکھے جا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملک کے قانون نافذ کرنے والے ادارے وزیراعظم کے ماتحت ہوتے ہیں، ایسے اداروں نے سینٹ الیکشن میں کرپشن میں ملوث افراد کے حوالے سے وزیراعظم کو رپورٹ دی ہوگی، میرا خیال ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو بکنے والے اراکین کے نام معلوم ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے اداروں کی آزادی پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں ہی یقینی ہوئی ہے، چاہے احتساب کے ادارے ہیں یا الیکشن کمیشن ہے سب ادارے آزادانہ طور پر اپنا کام کر رہے ہیں۔
بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا کہ سینٹ الیکشن میں 2,3 ارب روپے سے بھی زیادہ پیسہ چلا ہے، کوئی شک نہیں رہنا چاہیے کہ خریدار دو طرح کے لوگ تھے، ایک قسم کے خریدار کی ویڈیو آ گئی جسے پوری قوم نے دیکھا ہے اور اس کے علاوہ مریم نواز کے بیان کو بھی قوم نے دیکھا جس میں انہوں نے کہا کہ ہماری ٹکٹ چلی ہے۔