انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز میں ملائیشین سول سوسائٹی کے وفد کے ساتھ کشمیر پر گول میز کانفرنس، بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار

118

اسلام آباد۔14فروری (اے پی پی):انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی) نے ملائیشین کنسلٹیو کونسل آف اسلامک آرگنائزیشنز نے بھارتی غیر قانونی زیر تسلط کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تنازعہ کشمیر کے فوری حل کی ضرورت پر زور دیا اور دونوں اداروں کے مابین تعاون کو مزید مستحکم کرنے اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے مشترکہ کوششوں پر اتفاق کیا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی) نے ملائیشین کنسلٹیو کونسل آف اسلامک آرگنائزیشنز کے ایک اعلیٰ سطحی وفد کی میزبانی کی جس کی قیادت اس کے صدر محمد اعظمی بن عبد حامد کر رہے تھے۔

اس موقع پر ایک گول میز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں جموں و کشمیر کے حوالے سے تازہ ترین صورتحال، بھارت کے غیر قانونی قبضے، کشمیری عوام کے خلاف مسلسل جارحیت، اور اقوام متحدہ کے چارٹر و سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت کشمیریوں کے حق خودارادیت کی خلاف ورزیوں کا جائزہ لیا گیا۔کانفرنس میں ماہرین تعلیم، محققین، سفارتکاروں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور مسئلہ کشمیر پر سرگرم نوجوانوں نے شرکت کی۔ آئی ایس ایس آئی کے انڈیا سٹڈی سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر خرم عباس نے مہمان وفد کا خیرمقدم کیا اور تقریب کے مقاصد پر روشنی ڈالی۔

ڈائریکٹر جنرل آئی ایس ایس آئی، سفیر سہیل محمود نے اپنے خطاب میں MAPIM کے صدر محمد اعظمی بن عبد حامد اور ان کی تنظیم کے فلسطین اور کشمیر جیسے عالمی مسائل پر مؤثر حمایت کو سراہا۔ انہوں نے کشمیر پر بین الاقوامی توجہ بڑھانے کے لئے MAPIM کی کوششوں کی اہمیت کو اجاگر کیا اور کہا کہ یہ دورہ مسئلہ کشمیر پر بدلتی ہوئی عالمی صورتحال پر تبادلہ خیال اور بصیرت کے تبادلے کا ایک اہم موقع ہے۔ سفیر سہیل محمود نے زور دیا کہ جموں و کشمیر کا تنازع قانونی، انسانی حقوق، اور علاقائی امن و سلامتی کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ کشمیری عوام کا حق خودارادیت بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی قراردادوں میں تسلیم شدہ ہے، لیکن بھارت نے اس حق کو نظر انداز کرتے ہوئے 2019 میں غیر قانونی اقدامات کے ذریعے مقبوضہ علاقے کو اپنا حصہ قرار دے دیا، جو بین الاقوامی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں طویل کرفیو، جبری گمشدگیاں، ماورائے عدالت قتل، صحافیوں، کارکنوں اور نوجوانوں پر ظلم و ستم جیسے اقدامات جاری ہیں، جو بھارت کے جابرانہ ایجنڈے کا حصہ ہیں۔ علاقائی سلامتی کے حوالے سے، انہوں نے خبردار کیا کہ یہ تنازع جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) سمیت ہم خیال ممالک کے درمیان قریبی تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔

محمد اعظمی بن عبد حامد نے اپنے خطاب میں کہا کہ MAPIM کا وفد مسئلہ کشمیر کے حوالے سے عالمی سطح پر آگاہی بڑھانے اور حمایت کو تقویت دینے کے لئے متحرک ہے۔ انہوں نے نوآبادیاتی طاقتوں کی پالیسیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے جان بوجھ کر ایسے تنازعات چھوڑے جو بعد میں اندرونی عدم استحکام کا باعث بنیں۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی ناکامی کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ اس ادارے کے قیام سے انصاف کی امید پیدا ہوئی تھی، لیکن فلسطین اور کشمیر جیسے تنازعات کو حل کرنے میں اس کی مسلسل ناکامی نے اس کے مؤثر ہونے پر سنگین سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔ انہوں نے کشمیر کاز کے لیے ملائیشیا کی مسلسل حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ بدلتی ہوئی عالمی صورتحال کے پیش نظر، روایتی سفارتی کوششوں کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر حمایت اور متبادل وکالتی طریقوں کو بھی اپنانا ضروری ہے۔

انہوں نے اس تنازع کے حل کے لیے ایک عملی اور اختراعی تحقیق پر مبنی حکمت عملی اور تنازع کے خاتمے کے لئے اجتماعی کوششوں کی ضرورت پر زوردیا -گفتگو کے دوران شرکاء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ بھارت کے گمراہ کن بیانیے کا مقابلہ کرنے اور مسئلہ کشمیر کے قانونی و تاریخی حقائق کو عالمی برادری کے سامنے مؤثر طریقے سے پیش کرنے کے لئے مربوط کوششیں ناگزیر ہیں۔

مزید برآں انہوں نے بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی آبادیاتی ساخت تبدیل کرنے، نسل کشی، اور جبری ہندوائزیشن کی کوششوں پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان کا مؤثر جواب دینے کی ضرورت پر زور دیا۔ آئی ایس ایس آئی اور MAPIM کی قیادت نے ادارہ جاتی تعاون کو مزید مستحکم کرنے اور مسئلہ کشمیر پر مشترکہ طور پر کام کرنے پر اتفاق کیا۔ تقریب کے اختتام پر آئی ایس ایس آئی کے بورڈ آف گورنرز کے چیئرمین سفیر خالد محمود نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور اس بات پر زور دیا کہ عالمی سطح پر کشمیری عوام کی آواز کو بلند کرنے کے لیے ایسی مباحث جاری رہنی چاہئیں۔