او آئی سی،کامسٹیک اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے مابین سائنسی و ریگولیٹری تعاون کے فروغ کے لیے مفاہمتی یادداشت پر دستخط

67

اسلام آباد۔3جولائی (اے پی پی):اسلامی تعاون تنظیم کی قائمہ کمیٹی برائے سائنسی و تکنیکی تعاون (کامسٹیک) اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان کے درمیان سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں ترقی اور ریگولیٹری نظام کی بہتری کے لیے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے گئے۔ معاہدہ پر دستخط کرنے کی تقریب میں کامسٹیک کے کوآرڈینیٹر جنرل پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری اور ڈریپ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈاکٹر عبیداللہ نے دستخط کیے۔

تقریب میں دونوں اداروں کے سینئر حکام، ڈریپ کے ڈائریکٹرز اور کامسٹیک کے وفد کے ارکان نے شرکت کی۔ مفاہمتی یادداشت کا مقصد دونوں اداروں کے مابین اشتراک کو مضبوط بنانا ہے تاکہ ریگولیٹری صلاحیت کو بڑھایا اور سائنسی تعاون کو فروغ دیا جا سکے ۔ اس کے نتیجے میں او آءسی رکن ممالک کے درمیان علم و مہارت کا تبادلہ ممکن بنایا جاسکے گا۔ معاہدے کے تحت ترجیحی شعبوں میں دواسازی، ویکسین سازی، بایوٹیکنالوجی، متبادل ادویات، اور ڈیجیٹل صحت کا ریگولیشن شامل ہیں۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سی ای او ڈریپ ڈاکٹر عبیداللہ نے پاکستان میں ریگولیٹری ڈھانچے کی تعمیر کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے فعال دواساز اجزاءاور ویکسین کی مقامی تیاری کے لیے اسٹریٹجک اقدامات کی ضرورت کو اجاگر کیا۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری نے اپنے خطاب میں قومی و علاقائی سطح پر ریگولیٹری نظام کو مستحکم کرنے کے لیے کامسٹیک کی وابستگی کو دہرایا۔

انہوں نے مقامی تعلیمی و سائنسی اداروں کی تحقیقی و ترقیاتی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے قومی سطح پر روڈ شو کے انعقاد کی تجویز دی۔ انہوں نے تربیتی پروگرامز، او آئی سی ٹیکنالوجی و انویشن پورٹل میں اداروں کی رجسٹریشن، اور کامسٹیک اسکالرشپ پروگرام کے دائرہ کار کو وسعت دینے کی پیشکش کی۔انہوں نے اسلامی ممالک کے مابین علاج معالجے کی اشیائ کی سرحد پار تجارت کو آسان بنانے کے لیے ایک ہم آہنگ ریگولیٹری فریم ورک تشکیل دینے کی تجویز بھی پیش کی جس کے لیے یورپی میڈیسنز ایجنسی جیسے کامیاب ماڈلز سے رہنمائی لی جا سکتی ہے۔

یہ معاہدہ کامسٹیک اور ڈریپ کے اس مشترکہ عزم کا مظہر ہے کہ وہ صحت و دواسازی کے شعبے میں جدت، خود انحصاری، اور سائنس پر مبنی طرز حکمرانی کو فروغ دیں گے۔ دونوں اداروں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ اسلامی دنیا میں صحت عامہ کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے اجتماعی علمی و سائنسی وسائل کو بروئے کار لایا جائے گا۔