اگر جنرل باجوہ سپر کنگ تھے تو عمران خان سپرکرپٹ ہیں،عمران خان نے جعلی مقدمے،دھمکی،دھونس اوردبائوسےسلطانی گواہ بنائے،وفاقی وزیراطلاعات مریم اورنگزیب کی پریس کانفرنس

167

اسلام آباد۔14فروری (اے پی پی):وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ اگر جنرل باجوہ سپر کنگ تھے تو عمران خان سپر کرپٹ ہیں، عمران خان نے جعلی مقدمے، دھمکی، دھونس اور دبائو سے سلطانی گواہ بنائے، سلیکٹڈ ججز سے مرضی کے فیصلے لئے، عمران خان ہر عدالت سے استثنیٰ مانگ رہا ہے کیونکہ دامن صاف نہیں، نواز شریف، شہباز شریف سمیت مسلم لیگ (ن)کی قیادت ہر روز سرخرو ہوتی ہے اور عمران خان بے نقاب ہوتے ہیں، سپریم کورٹ کو سو موٹو لے کر عمران خان کو کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہئے۔ آج عدالت عمران خان کو بلائے اور پوچھے کہ وزیراعظم ہوتے ہوئے کیوں ملک کی خارجہ پالیسی سے خطرناک کھیل کھیلا، عمران خان کا عالمی یا امریکی سازش نہ ہونے کا اعتراف ثبوت ہے کہ وہ آرٹیکل 6 کے مجرم ہیں، آشیانہ کیس میں واحد ثبوت وعدہ معاف گواہ اسرار نے عدالت میں شہباز شریف کی بے گناہی کی گواہی دی کہ اس سے زبردستی بیان لیا گیا تھا، یہ گواہی عمران خان کے سیاسی انتقام کے منہ پر تھپڑ ہے۔

منگل کو یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ آشیانہ کیس میں شہباز شریف کے خلاف ایل ڈی اے کے چیف انجینئر اسرار سعید کو وعدہ معاف گواہ بنایا گیا تھا، آج اسرار سعید نے حلفاً بیان عدالت میں جمع کروایا ہے جس میں واضح طور پر کہا گیا کہ آشیانہ کیس میں دبائو اور دھونس دھمکیوں کے ذریعے انہیں وعدہ معاف گواہ بنایا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے اپنے دور میں شہباز شریف کے خلاف بے بنیاد کیسز بنائے، انہوں نے اپنے سہولت کار شہزاد اکبر اور اس کی ٹیم کو شہباز شریف اور سیاسی مخالفین کے خلاف کیسز بنانے کے لئے غیر آئینی طریقے سے رکھا ہوا تھا۔ شہزاد اکبر کا سوائے پریس کانفرنسز کے کوئی کام نہیں تھا، وہ کبھی گراف بناتے، کبھی ایرو رائٹ کرتے اور کبھی لیفٹ اور منی لانڈرنگ کا الزام لگاتے، انہوں نے جھوٹے کیسز کے جواز کے لئے جھوٹے گواہ بھی بنائے۔

انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کو 5 اکتوبر 2018ءکو صاف پانی کیس میں بلایا گیا اور آشیانہ کیس میں گرفتار کیا گیا، ان پر منی لانڈرنگ کا کیس بھی ڈال دیا گیا تاکہ آشیانہ کیس میں بیل ہونے پر انہیں منی لانڈرنگ کے کیس میں گرفتار کرلیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ایل ڈی اے کے چیف انجینئر اسرار سعید واحد گواہی تھی جو انہوں نے شہباز شریف کے خلاف دبائواور دھونس دھمکیوں سے حاصل کی، اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا، انہوں نے ڈیوڈ روز کو بلا کر جھوٹی کہانیاں بنوائیں۔ نیشنل کرائم ایجنسی میں ایف آئی اے اور نیب کا تمام ریکارڈ بھجوایا گیا لیکن کچھ سامنے نہیں آیا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے ڈی جی ایف آئی اے کو بلا کر کہا کہ سیاسی مخالفین کے خلاف کیسز بنائے جائیں جب انہوں نے انکار کیا تو انہیں عہدہ سے ہٹا دیا گیا۔ جب اسرار سعید نے سپریم کورٹ میں بیان دینے سے انکار کیا تو انہیں کسی دوسرے کیس میں گرفتار کرلیا گیا، اس کیس میں شہزاد اکبر، عمران خان اور ڈی جی نیب کے خلاف کیس درج ہونا چاہئے۔

وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ نواز شریف، شہباز شریف سمیت مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے اپنے خلاف تمام کیسز کا سامنا کیا اور آج وہ سرخرو ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ کسی نے ٹانگ پر پلستر باندھ کر گھروں میں پناہ نہیں لی، مریم نواز کو ان کے والد کے سامنے ہتھکڑیاں لگائی گئیں، ہم نے تو نہیں کہا کہ ہمیں استثنیٰ دیا جائے، ہر شخص نے اپنا جواب دیا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کے خلاف مقدمات میں کارروائی کیوں نہیں ہوتی؟ کیوں انہیں استثنیٰ ملتا ہے، یہ فرق کیوں ہے؟ ہر عدالت سے انہوں نے استثنیٰ مانگ رکھا ہے کہ میری ٹانگ پر پلستر ہے اس لئے مجھے استثنیٰ دیا جائے۔

مریم اورنگزیب نے کہا کہ عمران خان کی اصلیت آئے روز عوام کے سامنے بے نقاب ہو رہی ہے، انہوں نے شہباز شریف کے خلاف متعدد جھوٹے کیسز بنائے، ہم نے اپنے خلاف کیسز پر عدالتوں میں جا کر جواب دیا، شہباز شریف کو صاف پانی کیس میں بلا کر آشیانہ کیس میں گرفتار کیا گیا جبکہ عمران خان بلین ٹری سونامی، توشہ خانہ کیس میں پکڑے جائیں اور کہتے ہیں کہ میں جواب نہیں دوں گا، عمران خان نے اپنے اوپر کسی کیس میں جواب نہیں دیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ عمران خان نے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف ہر طاقت استعمال کی اور آج وہ ٹی وی پر بیٹھ کر تماشا لگاتے ہیں، وہ جسے تاحیات ایکسٹینشن دے رہے تھے آج ان کے خلاف بیان دے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کہا کرتے تھے کہ جنرل باجوہ جیسا سپہ سالار پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں آیا، وہ معیشت، فارن پالیسی میں میری مدد کر رہے تھے۔ آج عمران خان کہتے ہیں کہ تمام چیزوں کے ذمہ دار جنرل باجوہ تھے، عمران خان اب اقرار کر رہے ہیں کہ کوئی امریکی سازش نہیں ہوئی تھی، عمران خان اب کہتے ہیں کہ جنرل باجوہ ان کے خلاف سازش کر رہے تھے، عمران خان ان لوگوں کی توہین کر رہے ہیں جو ان کی باتوں کو سچ سمجھتے ہیں، یہ ان لوگوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے، عمران خان کہانیاں گھڑتے ہیں، آج ہم نہیں عمران خان خود کہہ رہے ہیں کہ کسی قسم کی کوئی بیرونی سازش نہیں ہوئی، اگر عمران خان کو پتہ تھا کہ جنرل باجوہ ان کی حکومت گرا رہے ہیں تو تحریک عدم اعتماد کی رات انہیں تاحیات توسیع دینے کی آفر کیوں کی؟،

اگر انہیں پتہ تھا کہ سارے کام باجوہ صاحب کر رہے ہیں اور الزامات آپ پر لگ رہے ہیں تو آپ وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھ کر کس کی ملازمت کر رہے تھے؟، آج آپ کا خالی بیان دے دینا کافی نہیں، آپ پر آرٹیکل 6 لگنا چاہئے، جس وقت آپ نے امریکی سازش اور سائفر کا الزام لگایا اس وقت آپ وزیراعظم تھے، آپ نے اپنے وزراءکو پارلیمنٹ میں کھڑا کر کے کہا کہ تحریک عدم اعتماد منسوخ کی جاتی ہے کیونکہ یہ امریکی سازش ہے، آپ نے سپیکر، ڈپٹی سپیکر اور صدر پاکستان سے آئین شکنی کروائی، آپ نے پاکستان کی سالمیت کے ساتھ خطرناک کھیل کھیلا، آپ نے اس بات کا ثبوت دیا ہے کہ آپ نے ان لوگوں سے جھوٹا بیان دلوایا۔ انہوں نے کہا کہ آج شہباز شریف کے خلاف وعدہ معاف گواہ عدالت میں کھڑا ہو کر کہتا ہے کہ میرے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے، قومی خزانہ کو کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچا، شہباز شریف نے اس وقت عالمی کانفرنس بلائی کہ عوامی مفاد کو دیکھا جائے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کو جب پتہ چل گیا کہ ان کا بیانیہ پٹ چکا ہے، انہوں نے جو وعدہ معاف گواہ بنائے وہ گواہی دے رہے ہیں کہ کسی قسم کی کوئی کرپشن نہیں ہوئی، عمران خان نے اپنے دور میں خود سیاسی مخالفین کو گرفتار کروایا اور اب کہتے ہیں کہ میرے خلاف سیاسی انتقام ہو رہا ہے، یہ کیسا سیاسی انتقام ہے کہ عمران خان زمان پارک میں آزاد بیٹھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان ایک دن الزام لگاتے ہیں اور اگلے دن انہی لوگوں سے معافی مانگتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اس وقت ترقی کرے گا جب عمران خان جیسے بہروپیے سے نجات ملے گی، عمران خان جیسے تماشا لگانے والے پر اب کوئی یقین نہیں کرتا، عمران خان نے جھوٹ بول کر پاکستان کی معیشت کی بنیادیں ہلائیں، جو ملک 6.1 فیصد کی شرح سے ترقی کر رہا تھا عمران خان کے دور میں منفی 1 فیصد پر گیا، عمران خان نے اپنے دور میں احتساب کو مذاق بنایا، انہوں نے حسد اور بغض میں اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف جھوٹے کیسز بنائے تاکہ وہ جیلوں میں رہیں اور کوئی ان کے خلاف آواز نہ بلند کر سکے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کے کرتوتوں کی وجہ سے پاکستان کے عوام کا نقصان ہوا، انہوں نے معیشت تباہ کی، نوجوانوں کو روزگار سے محروم کیا، ملک کو مہنگائی کے طوفان میں دھکیلا اور اب دو جھنڈے لگا کر ٹی وی پر بیٹھ کر کس ڈھٹائی سے باتیں کرتے ہیں، وہ لوگ جو ان کی بات پر یقین کرتے ہیں، یہ ان کی توہین ہے کہ عمران خان انہیں ذہنی معذور سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان سمجھتے تھے کہ وہ جعلی مقدمات بنا کر زبردستی کے گواہ لا کر تاحیات بیانیہ بنا لے گا لیکن وہ اپنے چار سالوں میں ایک بھی ثبوت فراہم نہیں کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان دوسروں کو چور کہتے ہیں، اگر چور تھے تو ثابت کیوں نہیں کیا؟ انہوں نے کہا کہ عمران خان خود چور ہے کیونکہ ان کے پاس جواب نہیں ہے، عمران خان خود عدالت نہیں جاتے اور عدالت سے استثنیٰ مانگتے ہیں، خود پلستر کا بہانہ بنا کر نوجوانوں سے کہتے ہیں کہ جیلیں بھرو۔

وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ عمران خان نے خود آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر دستخط کئے، ملکی معیشت کو بیچا، قانون سازی کروائی اور اب اپنے دور کے وزیر خزانہ سے کہا کہ آئی ایم ایف کو خط لکھ کر فنڈز جاری کرنے سے منع کریں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے پاکستان کے نوجوانوں سے روزگار چھینا، لوگوں کے چولہے بند کئے، قوم کو ترقی سے محروم کیا اور اب اپنے جھوٹ اور منافقت کا ڈرم پیٹ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹی وی پر بیٹھ کر بیانات دینے سے اب بات ختم نہیں ہوگی، تمہیں کٹہرے میں کھڑا کرنا پڑے گا، آج سپریم کورٹ کو نوٹس لینا چاہئے، سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا تھا کہ آئین شکنی ہوئی ہے تحریک عدم اعتماد اور سائفر کے معاملے پر عمران خان کو کیوں نہیں بلایا جاتا، پاکستان کا اس سے بڑا ایشو اور کیا ہو سکتا ہے کہ ملک کا وزیراعظم ملک کے خلاف سازش کی بات کر کے اسمبلیاں توڑ دے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان نے آئینی عہدوں سے آئین شکنی کروائی، یہ آرام سے فرار حاصل نہیں کر سکتے، چاہے آپ زمان پارک میں بیٹھیں یا دوسری ٹانگ پر پلستر چڑھا دیں، آپ کو جواب دینا پڑے گا۔ پاکستان کے عوام کا مطالبہ ہے کہ عمران خان کو جواب کے لئے کٹہرے میں بلایا جائے۔ صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمران خان اپنے سہولت کاروں کا رنگ ماسٹر تھا، اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کر کے انہوں نے یہ سارے کام کئے، عمران خان کو ہی جواب دینا پڑے گا۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ سپریم پوزیشن پر بیٹھے ہر شخص کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ انصاف ہوتا ہوا نظر آئے، جب ادارے کا سربراہ اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کرتا تو پھر ادارہ کمزور ہوتا ہے۔