این ڈی ایم اے کے زیر اہتمام قومی آفات کی تیاری اور ردعمل کے فریم ورک پر دو روزہ ورکشاپ کا انعقاد

128
این ڈی ایم اے کے زیر اہتمام قومی آفات کی تیاری اور ردعمل کے فریم ورک پر دو روزہ ورکشاپ کا انعقاد

اسلام آباد۔8مارچ (اے پی پی):نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کی ریسرچ برانچ، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ڈیزاسٹر مینجمنٹ (این آئی ڈی ایم) نے مقامی ضروریات کے فرق کے تجزیے اور دوبارہ تشکیل شدہ قومی آفات کی تیاری اور ردعمل کے فریم ورک پر دو روزہ ورکشاپ کا اہتمام کیا۔ ورکشاپ کا انعقاد نیشنل یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی اسلام آباد میں کیا گیا۔

یہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی طرف سے ملک بھر میں کثیر خطرات کی تیاری پر مبنی ورکشاپ سیریز کا پہلا مرحلہ ہے۔ چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر ملک اور نیوٹیک کے ریکٹر لیفٹیننٹ جنرل (ر) معظم اعجاز نے پہلے سیشن کا افتتاح کیا۔

ورکشاپ کا مقصد ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے نظام میں موجود خامیوں کی نشاندہی کرنا اور پاکستان میں آفات کے خطرے میں کمی کے لیے سینڈائی فریم ورک کے مطابق تیاری کے نظام کو طے کرنا ہے۔ ریکٹر نیوٹیک نے قدرتی آفات کی تیاری اور رسپانس سسٹم کے حوالے سے این ڈی ایم اے کے مستقبل کے نقطہ نظر کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی سیلاب 2022 کے دوران سیکھے گئے اسباق کے ذریعے خامیوں کی نشاندہی کے لیے قومی گفتگو شروع کرنے اور ملک میں قدرتی آفات کے بہتر انتظام کے لیے مقامی حل تلاش کرنے کے لیے تحقیقی کے سلسلے میں این ڈی ایم اے کے ساتھ کلیدی شراکت دار ہوگا۔ چیئرمین این ڈی ایم اے نے قومی تیاری اور رسپانس سسٹم کے نئے انداز پر اظہار خیال کیا۔

انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ ڈیجیٹل طور پر اپ ڈیٹ کردہ نیشنل ایمرجنسی اینڈ آپریشنز سینٹر پاکستان میں آفات یا ہنگامی حالات کے فعال انتظام کے لیے ابتدائی وارننگ سسٹم، الرٹس اور نتیجتاً مصنوعی ذہانت پر مبنی فیصلہ سازی کے لیے ڈیٹا کے ساتھ تعاون کرے گا۔

چیئرمین این ڈی ایم اے نے ہنگامی تیاریوں کے لیے تحقیق پر مبنی ماڈیولز اور موسمیاتی خطرات کے خلاف قومی لچک پیدا کرنے کے لیے فرضی مشقوں پر زور دیا۔ اس سلسلے میں، انہوں نے بتایا کہ این ڈی ایم اے مارچ 2023 کے تیسرے ہفتے میں شروع ہونے والے تمام اسٹیک ہولڈرز کے تعاون سے ملک بھر میں مشقوں کا اہتمام کر رہا ہے۔ پہلے دن کے سیشن میں تعلیمی ماہرین، پی ایم ڈی، ریسکیو 1122، این جی اوز، آئی این جی اوز اور دیگر متعلقہ سرکاری محکموں نے شرکت کی۔