اسلام آباد۔4جون (اے پی پی):وزیراعظم عمران خان نے بھارت کے ساتھ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لئے مشروط پیشکش کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کی 5 اگست 2019ء سے پہلے والی حیثیت بحال کر دے تو پاکستان بات چیت دوبارہ شروع کرنے کے لئے تیار ہے، پاکستان ہمیشہ سے بھارت کے ساتھ مہذب اور کھلے تعلق کا خواہاں ہے، پاکستان افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء سے قبل افغان مسئلے کے سیاسی حل کے لئے کوشاں ہے، امریکہ کی واپسی کے فیصلے کے بعد طالبان سے رعایات حاصل کرنا آسان نہیں ہوگا، افغانستان میں خانہ جنگی اور پناہ گزینوں کے بحران سے پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہوگا۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کو یہاں رائٹر نیوز ایجنسی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ یہ عام فہم بات ہے کہ اگر برصغیر میں غربت ختم کرنی ہے تو ایک دوسرے کے ساتھ تجارت اس کا بہترین راستہ ہے، اس سلسلے میں یورپی یونین کی مثال موجود ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اگر بھارت ہمیں ایک روڈمیپ دیتا ہے کہ یہ وہ اقدامات ہیں جو غیر قانونی، بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے خلاف کی جانے والی کارروائی کو ختم کرنے کے لئے کئے جائیں گے تب یہ چیز قابل قبول ہوگی۔ وزیراعظم نے کہا کہ بھارت 5 اگست 2019ء سے پہلے والی مقبوضہ کشمیر کی حیثیت بحال کر دے تو اس کے ساتھ بات چیت دوبارہ شروع ہو سکتی ہے، بھارت نے 5 اگست 2019ء کو مقبوضہ کشمیر کی خودمختاری ختم کر کے ریڈ لائن عبور کی، اب تک بھارت کی طرف سے کوئی ردعمل نہیں آیا، بھارت کو دوبارہ بات چیت کے آغاز کے لئے ہم سے رابطہ کرنا پڑے گا۔
افغانستان کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان رواں سال کے آخر میں غیر ملکی افواج کے انخلاء سے قبل وہاں سیاسی حل کے لئے کوشاں ہے تاکہ وہاں پر خانہ جنگی کے خطرے کو کم کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اس حوالے سے ایک بڑا خدشہ پایا جاتا ہے اور یقین دلاتے ہیں کہ ہم اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں کہ امریکہ کی واپسی سے قبل افغانستان کا کوئی سیاسی حل نکل آئے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے افغانستان سے واپسی کی تاریخ دے دی ہے، طالبان محسوس کرتے ہیں کہ انہوں نے جنگ جیت لی ہے، امریکی فیصلے کے بعد طالبان سے رعایات حاصل کرنا آسان نہیں ہوگا۔
وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان میں خانہ جنگی اور پناہ گزینوں کے بحران سے افغانستان کے بعد پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہوگا اور تب اپنا کردار ادا کرنے اور اس معاملے کا حصہ بننے کے لئے ہمارے اوپر دبائو ہوگا۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کو افغان عوام کی منتخب کردہ کسی بھی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔