اسلام آباد۔16ستمبر (اے پی پی):بھارت اپنی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم سینکڑوں افغان طلباء کے ویزوں میں توسیع سے انکار کر رہا ہے جس سے میزبان ملک میں ان کی قانونی حیثیت کے بارے میں خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق 21 ہزار کے قریب افغان شہری بھارت میں آباد تھے جن میں 11 ہزار پناہ گزین بھی شامل تھے تاہم انہیں پناہ گزینوں کے زمرے میں شامل نہیں کیا گیا۔ بھارت اپنے فارنرز ایکٹ 1946 کے تحت افغان مہاجرین اور پناہ کے متلاشیوں کو غیر قانونی تارکین وطن کے طور پر درجہ بندی کرتا ہے اور یہ قانون بنیادی سہولیات تک رسائی کو روکتا ہے۔
بھارت نے افغان طلباء کے ویزے اور اسکالرشپ پروگرام میں توسیع سے انکار کیا ہے اس طرح کا منظر نامہ بھارت کے افغانوں کے لیے ایک دوست ملک ہونے کے دعوؤں کو بے نقاب کرتا ہے کیونکہ وہاں رہنے والے افغان شہری گزشتہ 15 سالوں سے انتہائی سماجی اور معاشی مجبوریوں کا شکار ہیں۔ انہیں نہ تو روزی کمانے کی سہولت میسر ہے اور نہ ہی تعلیم اور صحت کی سہولتوں تک رسائی حاصل ہے ۔
سال 2022 میں بھارت نے یہ جاننے کے باوجود کہ سینکڑوں افغان طلباء اس کی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں، ان کے ویزے منسوخ کر دیے تھے۔ بھارت نے افغان طلبہ کے ویزے، اسکالرشپ پروگرام میں توسیع سے انکار کردیا ہے ۔چند روز قبل افغان طلبہ کی ایک بڑی تعداد نے اپنے قیام میں توسیع اور پڑھائی دوبارہ شروع کرنے کے لیے نئی دہلی میں احتجاجی مظاہرہ بھی کیا تھا۔ اپنے ویزوں کی میعاد ختم ہونے کے بعد، ان طلباء نے پولیس کی گرفتاری کے خوف سے اپنی آواز بلند کی۔
بھارت نے افغان طلباء کے ویزے میں توسیع کی تردید کی ہے ۔ واضح رہے کہ اسکالرشپ پروگرام بھارت نے ماضی میں افغانستان جیسے ممالک کے ہزاروں غیر ملکی طلباء کو انڈر گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ ڈگری حاصل کرنے کے لیے وظائف کی پیشکش کی تھی۔ میڈیا رپورٹس میں مزید کہا گیا کہ بھارت میں طلباء کو نہ تو اسکالرشپ مل رہی ہے اور نہ ہی انہیں کام کرنے کی اجازت دی جارہی ہے۔