27.1 C
Islamabad
جمعہ, مئی 16, 2025
ہومقومی خبریںبھارتی حکومت نے مذہبی اقلیتوں کے حقوق دبانے اور اپنے مخالفین کو...

بھارتی حکومت نے مذہبی اقلیتوں کے حقوق دبانے اور اپنے مخالفین کو خاموش کرانے کے لئے انسداد دہشت گردی اورمنی لانڈرنگ قوانین کا استعمال کیا ، ایمنسٹی انٹرنیشنل

- Advertisement -

اسلام آباد۔29مارچ (اے پی پی):انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ بھارت نے انسانی حقوق کے محافظوں اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق دبانے اور اپنے مخالفین کو خاموش کرانے کے لیے انسداد دہشت گردی اور منی لانڈرنگ سمیت جابرانہ قوانین کا استعمال کیا جن میں طویل مدت تک حراست میں رکھنا اور ماورائے عدالت ہلاکتیں شامل ہیں ۔

” اسٹیٹ آف دی ورلڈ ہیومین رائٹس 2022/23″ نامی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی حکومت نے جان بوجھ کر مذہبی اقلیتوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا، اور سیاسی رہنماؤں اور عوامی عہدیداروں کی طرف سے ان کے خلاف نفرت کا واضح اظہار ایک عام سی بات تھی اور انہیں سزا تک نہیں دی گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ مدت کے دوران مسلم خاندانوں کے گھر اور کاروبار مسمار کرنے میں انہیں مکمل حکومتی سر پر ستی حا صل تھی ۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اقلیتی حقوق کا دفاع کرنے والے پرامن مظاہرین کو امن عامہ کے لیے خطر ے کے طور پر پیش کیاگیا۔

- Advertisement -

مخالفین کو خاموش کرانے کے لٗئے انسداد دہشت گردی کی قانون سازی سمیت جابرانہ قوانین کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ حکام نے ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کا استعمال کرتے ہوئے انسانی حقوق کے محافظوں کو بشمول غیر قانونی نگرانی کرنے کے حوالے سے ڈرایا دھمکایا ۔ ایمنسٹی نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ آدیواسیوں اور پسماندہ کمیونٹیز بشمول دلتوں کو تشدد اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہراساں کرنے اور دھمکیاں دینے کے ایک مسلسل طریقہ کار کے تحت سول سوسائٹی کی تنظیموں اور انسانی حقوق کے محافظوں بشمول کارکنوں، صحافیوں، طلباء اور ماہرین تعلیم پر غیر قانونی اور سیاسی طور پر محرک پابندیاں عائد کی گئیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 14 جولائی کو، پارلیمنٹ کے ایوان زیریں نے پارلیمانی مباحثوں کے دوران پارلیمنٹ کے اپوزیشن ممبران کی تقاریر کو روکنے کے لیے متعدد عام الفاظ پر پابندی عائد کر دی تھی، جن میں دیگر کے علاوہ، "کرپٹ”، "جنسی طور پر ہراساں کرنا”، "مجرم”، "آنکھوں کی دھول”، "نااہل” اور "منافقت” شامل ہیں۔گزشتہ ستمبر میں، این جی او پاپولر فرنٹ آف انڈیا اور اس سے ملحقہ تنظیموں کے خلاف بھارت بھر میں بڑے پیمانے پر چھاپے مارے گئے ، جسے بعد میں دہشت گردی کی فنڈنگ اور دہشت گردی کی سرگرمیوں میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت ایک "غیر قانونی انجمن” قرار دیا گیا تھا۔ تاہم ان چھاپوں کے دوران گرفتار ہونے والوں کے خلاف ان الزامات کوئی مقدمات چلائے گئے ۔

بھارتی سپریم کورٹ نے اختیارات سے متعلق پریونشن آف منی لانڈرنگ ایکٹ (2002) کی دفعات کو برقرار رکھا تھا۔گرفتاری، جائیداد کی ضبطی سول سوسائٹی کو دبانے اور اختلاف رائے کو محدود کرنے کے لیے ان اختیارات کا بار بار استعمال کیا گیا ہے۔پورے سال کے دوران، حکام نے معمول کے مطابق بین الاقوامی سفری پابندیوں کا استعمال انسانی سمیت آزاد آوازوں کو دبانے کے لیے کیا۔انسانی حقوق کے کارکن اور ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے سابق سربراہ آکار پٹیل، صحافی رانا ایوب اور کم از کم دو کشمیریوہ صحافی جو ہندوستان کی انسانی حقوق کی صورتحال پر بیرون ملک بات کرنے والے تھے۔

بھارتی حکومت نے ظالمانہ اور جابرانہ قوانین کے تحت کارروائی کے لئے مناسب طریقہ کار اپنائے بغیر مانی گرفتاریوں کا سہارا لے کر ناقدین کے خلاف کریک ڈاؤن کیا ۔28 جون کو، آزاد حقائق کی جانچ پڑتال کرنے والی ویب سائٹ الٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کو نئی دہلی میں پولیس نے اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک کی مذمت کرنے اور بڑھتی ہوئی سنسرشپ پر تنقید کرنے پر گرفتار کر لیا۔ظالمانہ اور جابرانہ قوانین کے تحت ریاست مہاراشٹر میں انسانی حقوق کے گیارہ کارکنوں کو بغیر مقدمہ چلائے حراست میں رکھا گیا جن میں ماہرین تعلیم شوما سین اور ہانی بابو ، قبائلی حقوق کے کارکن مہیش راوت، شاعر سدھیر دھاولے، وکیل سریندر گڈلنگ، شہری حقوق کے کارکن رونا ولسن، ارون فریرا اور ورنن گونسالویس اور ثقافتی گروپ کبیر کلا منچ کے تین ارکان رمیش گائچور، جیوتی جگتاپ اور ساگر گور کھے شامل تھے ۔

صحافی صدیق کپن اور تین دیگر کو بغاوت کے قوانین اور یو اے پی اے کے تحت نظر بند رکھا گیا۔حکام نے آزادی اظہار اور پرامن اجتماع پر نئی پابندیاں عائد کر دیں۔ کرناٹک کی ہائی کورٹ نے ایک ریاستی حکم کو برقرار رکھا جس میں تمام مظاہروں کو ریاست کے دارالحکومت بنگلورو کے ایک مخصوص علاقے تک محدود رکھا گیا ہے۔ ریاست گجرات کی پولیس نے انسانی حقوق کے کارکن سندیپ پانڈے کو سات دیگر افراد کے ساتھ حراست میں لے لیا جو ایک مارچ میں شرکت کرنے والے تھے جس میں گینگ ریپ کی متاثرہ بلقیس بانو سے عوامی معافی کا مطالبہ کیا گیا تھاجنہیں گجرات حکومت نے جیل سے رہا کیا تھا۔ بھارتی حکومت نے مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف غیر متناسب طور پر فوجداری قوانین کا استعمال کیا کیونکہ پولیس معمول کے مطابق مسلمانوں کو نماز پڑھنے، جائز کاروباری لین دین کرنے اور گائے کا گوشت کھانے کے جرم میں گرفتار کرتی ہے۔ہریانہ، اتر پردیش، مدھیہ پردیش، کیرالہ اور گجرات میں کچھ ہندو گروپوں کی طرف سے مسلمانوں کے کاروبار کے معاشی بائیکاٹ کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔

نفرت انگیز جرائم بشمول دلتوں اور آدیواسیوں کے خلاف تشدد کا ارتکاب مکمل استثنی کے ساتھ کیا گیا۔ 2021 میں درج فہرست ذاتوں کے افراد کے خلاف 50,000 سے زیادہ مشتبہ جرائم اور آدیواسی لوگوں کے خلاف 9,000 سے زیادہ جرائم رپورٹ ہوئے۔فہد شاہ، آصف سلطان اور سجاد گل سمیت کئی کشمیری صحافیوں کو گرفتار کیا گیا۔ مقامی عدالتوں سے ضمانت ملنے کے بعد، انہیں یو اے پی اے کے تحت تقریباً فوراً ہی دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ صحافی آکاش حسن اور ثنا ارشاد مٹو کو امیگریشن حکام نے عدالتی حکم، وارنٹ یا تحریری وضاحت کے بغیر بیرون ملک سفر کرنے سے روک دیا۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق،

اپریل 2020 اور مارچ 2022 کے درمیان جموں اور کشمیر میں پولیس سے ہونے والی اموات کا سب سے زیادہ تناسب ہے۔رپورٹ کے مطابق مجرموں نے حکومتی حمایت کے ساتھ جنسی اور گھریلو تشدد کا سلسلہ جاری رکھا۔ ریاست کرناٹک کی حکومت نے سرکاری اسکولوں میں خواتین اور لڑکیوں کے سر پر اسکارف (حجاب) پہننے پر پابندی عائد کر دی جس کی وجہ سے مسلمان خواتین اور لڑکیوں کو ہراساں کیا گیا۔

Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=357665

- Advertisement -
متعلقہ خبریں
- Advertisment -

مقبول خبریں