اسلام آباد۔25ستمبر (اے پی پی):وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی نے کہاہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76 ویں سالانہ اجلاس کے موقع پرکئی ممالک کے وزرائے خارجہ اوربین الاقوامی تنظیموں کے سربراہان سے بالخصوص کشمیراورافغانستان سمیت عالمی وعلاقائی مسائل پرہونے والی بات چیت اطمینان بخش رہی ہے۔ انہوں نے یہ بات جنرل اسمبلی کے 76 ویں سالانہ اجلاس میں پاکستانی وفد کے سربراہ کی حیثیت سے پانچ روزہ دورے کے اختتام پرپاکستانی میڈیاکے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہی۔
وزیرخارجہ نے کہاکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اب بین الاقوامی برادری پاکستان کے موقف کوبہتراندازمیں سمجھ رہی ہے۔ وزیرخارجہ نے کہاکہ وزیراعظم پاکستان نے جنرل اسمبلی کے اجلاس سے ایک عالمی مدبر کی حیثیت سے وسیع ترامورپراپنے خیالات کااظہارکیا ، وزیراعظم کاخطاب مثبت اورتعمیری تھا، بالخصوص وزیراعظم نے افغانستان میں اشرف غنی حکومت کے خاتمہ اورطالبان کی اقتدارمیں واپسی کے پس منظرکی وجوہات ڈھونڈنے کیلئے کہا،وزیراعظم نے عالمی برادری کے سامنے جموں وکشمیر سے متعلق بھارتی پراپیگنڈہ کا پول کھول دیا اورمتازعہ خطہ کی حقیقی صورتحال واضح کردی۔
وزیراعظم نے پاکستان کی جانب سے بھارت کے غیرقانونی زیرقبضہ جموں وکشمیر کے متنازعہ خطے میں بھارتی سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں انسانی حقوق کی منظم اوروسیع ترخلاف ورزیوں کے حوالہ سے موقر اورشواہد پرمبنی جاری کردہ ڈوزئیر کا بھی حوالہ دیا ہے۔وزیرخارجہ نے کہاکہ اوآئی سی رابطہ گروپ کے ساتھ اجلاس کے نتائج سے وہ مطمئن ہیں، اس اجلاس میں ترکی، سعودی عرب اورآذربائیجان کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی اورمسئلہ کشمیر پراپنے موقف کا اعادہ کیا۔
وزیرخارجہ نے اپنے دورے کے دوران امریکی وزیرخارجہ انتھونی بلنکن کے ساتھ بالمشافہ ملاقات سمیت درجنوں وزرائے خارجہ کے ساتھ ملاقاتیں کیں ، امریکی وزیرخارجہ کے ساتھ وزیرخارجہ نے ایک گھنٹہ سے زائد ملاقات کی اورمختلف امورپرتبادلہ خیال کیا۔ایک سوال پروزیرخارجہ نے کہاکہ امریکی وزیرخارجہ کے ساتھ ملاقات اچھے ماحول میں ہوئی ہے کیونکہ اس ملاقات کامقصد غلط فہمیوں کودورکرنا تھا۔ امریکی وزیرخارجہ نے ہمارا موقف تفصیل سے سنا اوراس کے بعد اپنی رائے کااظہارکیا۔انہوں نے کہاکہ امریکی وزیرخارجہ نے امریکا اوردیگرممالک کے شہریوں کے افغانستان سے انخلا میں تعاون فراہم کرنے اورخطہ میں امن کے قیام کیلئے پاکستان کی کوششوں کوسراہا۔
ایک اورسوال پروزیرخارجہ نے کہاکہ افغانستان میں ایک جامع حکومت کے قیام کے حوالہ سے بات چیت ہوئی اوراس ضمن میں انہوں نے تجویز پیش کی کہ طالبان کوانگیج کرنے اور انہیں ترغیبات دینے سے یہ مقصدحاصل ہوسکتا ہے ۔
وزیرخارجہ نے کہاکہ یونٹی فارکنسنسز کے وزارتی اجلاس میں اس بات سے اتفاق کیاگیا کہ سلامتی کونسل کی ری سٹرکچرنگ اتفاق رائے سے ہونی چاہئیے، اجلاس میں سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کی تعداد میں اضافہ کی مکمل مخالفت کی گئی اوراس کی بجائے غیرمستقل ارکان کی تعدادمیں اضافہ کامطالبہ کیا گیا۔ سلامتی کونسل کی تشکیل نو کے ضمن میں بین الحکومتی مذاکرات (آئی جی این) آئندہ ماہ شروع ہوں گے۔اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیراکرم اورامریکا میں پاکستان کے سفیر اسدمجیدبھی اس موقع پرموجود تھے۔