حلیم عادل شیخ کا کراچی میں امن و امان کی بحالی کے لئے رینجرز کے ذریعے آپریشن کا مطالبہ

59

کراچی۔13جنوری (اے پی پی):سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حلیم عادل شیخ نے کراچی میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے شہر میں بڑھتی ہوئی مجرمانہ سرگرمیوں کو روکنے کے لیے رینجرز کے ذریعے آپریشن کا مطالبہ کر دیا۔ یہ مطالبہ انہوں نے گزشتہ روز پاکستان ایمپلائز کوآپریٹوہائوسنگ سوسائٹی (پی ای سی ایچ ایس) میں ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر گھر کے باہر ڈاکو کے ہاتھوں قتل ہونے والے نوجوان شاہ رخ سلیم کے سوگوار لواحقین سے تعزیت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہا ایک ماں کے لیے اپنے نوبیاہتا بیٹے کو اپنی آنکھوں کے سامنے مرتے ہوئے دیکھنا نہایت دل کو دہلادینے والا واقعہ تھا۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شاہ رخ سلیم ایک بلند حوصلہ نوجوان اور پی ٹی آئی کا ایک سرگرم سیاسی کارکن تھاجس نے اپنی ماں کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جان قربان کی، صوبے بھر میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال خصوصاً اس کے دارالحکومت میں امن و امان کے نفاذ اور نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لیے رینجرز کو مزید اختیارات دینا ناگزیر ہو گیا ہے۔

انہوں نے جرائم پیشہ عناصر کے خلاف وسیع پیمانے پر آپریشن کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جرائم کے بڑھتے ہوئے واقعات اور شہریوں کو جرائم پیشہ عناصر سے بچانے کے لیے یہ وقت کی ضرورت ہے۔حلیم عادل شیخ نے کہا کہ گھنائونے جرائم کے بڑھتے ہوئے واقعات سے ظاہر ہے کہ سندھ پولیس امن و امان اور شہریوں کے تحفظ میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے اور آئے دن بے گناہ لوگ جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سندھ پولیس کا اسپیشل سروسز یونٹ صرف وی آئی پی سیکیورٹی کے لیے مختص ہے جبکہ کراچی کے تھانوں میں تعینات اہلکار بدعنوانی، بھتہ وصولی اور زمینوں پر قبضے کی کارروائیوں میں مصروف ہیں، ڈاکو اور لٹیرے قانون کی پاسداری کرنے والے شہریوں کو نشانہ بنانے کے لیے آزاد گھوم رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پی پی پی سندھ حکومت کی بدعنوانی، جانبداری اور محکمہ پولیس میں سیاسی مداخلت نے قانون نافذ کرنے والے شہری ادارے کو غیرمئوثر اور صوبے میں امن و امان کی صورتحال مکمل طور پر قابو سے باہر کر دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایس ایس یو، اے سی ایل سی اور پولیس کے دیگر خصوصی یونٹس بنانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوا جبکہ پولیس کے تفتیشی اور پراسیکیوشن کے محکموں کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ تفتیشی محکمے میں انتہائی ناکارہ اہلکار تعینات کیے گئے ہیں جبکہ سرکاری وکیل اور پراسیکیوٹر عموماً مقدمات کی مئوثر پیروی نہیں کرتے یا عدالتوں میں پیش ہی نہیں ہوتے۔

وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ کے پاس وزیر داخلہ کا قلمدان بھی ہے جبکہ مرتضی وہاب 6 سال سے محکمہ پراسیکیوشن کی نگرانی کر رہے ہیں اور انہیں صوبے کے عوام کے سامنے خود کو جوابدہ سمجھنا چاہیے جہاں جرائم کی متعدد وارداتوں کے ساتھ روزانہ 3 سے 4 شہریوں کی ہلاکت کے واقعات رونما ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جرائم پیشہ افراد قانون کے خوف سے آزاد ہیں کیونکہ وہ پکڑے نہیں جاتے اور اگر وہ پکڑے بھی جائیں تو وہ ناقص تفتیش اور کمزور پراسیکیوشن کی وجہ سے قلیل عرصے میں رہا ہو جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان کے حلقے میں کچھ ڈاکو شہریوں نے پکڑ کر پولیس کے حوالے کئے تھے لیکن چند دنوں کے بعد ان بدمعاشوں کو رہا کر دیا گیا اور انہوں نے اس شہری کو ہی قتل کر دیا جس نے انہیں پکڑا تھا۔ انہوں نے ایک نجی سیکیورٹی کمپنی کے سیکیورٹی گارڈ کی بے حسی پر بھی افسوس کا اظہار کیا جو جائے وقوعہ کے قریب موجود تھا اور اس نے جرم کو روکنے کے لیے مداخلت نہیں کی حالانکہ اس کی مداخلت سے ایک انسانی جان بچ سکتی تھی۔اس طرح کا خوف زدہ رویہ عام ہو گیا ہے اور ہمارا پورا معاشرہ بے حس ہو گیا ہے، اس صورتحال میں ہم سب کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔

حلیم عادل شیخ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ وہ ہمیشہ جبر اور زیادتی کے متاثرین کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ اپوزیشن کے کردار سے متعلق ایک اور سوال کے جواب میں حلیم عادل شیخ نے کہا کہ شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانا مراد شاہ کی سندھ حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے جسے ادا کرنے میں وہ بری طرح ناکام ہوچکے ہیں جبکہ قائد حزب اختلاف ہونے کے ناطے میں نے ہمیشہ سندھ اسمبلی میں، میڈیا کے سامنے ہر فورم پر صوبائی حکومت کی ناکامیوں، کوتاہیوں اور غلط کاموں کے خلاف آواز بلند کی ہے۔