حکومتوں سے قطع نظر ہمیں مسئلہ کشمیر پر عالمی سطح پر اپنا مؤقف پیش کرتے رہنا چاہئے، معیشت کی بہتری کیلئے تمام اقدامات کئے جا رہے ہیں، ،نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی گفتگو

113
،نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی گفتگو

نیویارک ۔22ستمبر (اے پی پی):نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ حکومتوں سے قطع نظر ہمیں مسئلہ کشمیر پر عالمی سطح پر اپنا مؤقف پیش کرتے رہنا چاہئے، معیشت کی بہتری کیلئے تمام اقدامات کئے جا رہے ہیں، توانائی کے شعبہ میں اصلاحات کی جا رہی ہیں، چین پاکستان کا دیرینہ دوست ہے، اس سے تعلقات پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا، ہم تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں، بھارت مقبوضہ کشمیر میں مظالم ڈھا رہا ہے، پاکستان کے امریکہ کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں اور وہ سب سے بڑا تجارتی شراکت ہے۔

پی ٹی وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ پی ٹی وی کی استعداد کو بڑھائیں، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کے بنیادی نکات میں تنازعہ کشمیر پر پاکستان کے بنیادی مؤقف کو دنیا کے سامنے پیش کرنا شامل ہے، کشمیر کے تنازعہ کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کیلئے کوئی بھی حکومت ہو اسے مسلسل کاوشیں کرنی چاہئیں، بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ کشمیر میں وہاں کے رہائشی بھارتی ریاستی دہشت گردی کا مردانہ وار مقابلہ کر رہے ہیں، ان کے حوصلے بڑھانے کیلئے یہ فورم اہم ہے، ہمیں اگر اور کسی معاملہ پر بات نہ بھی کرنی ہو تو ہمیں کشمیر کے تنازعہ پر بات کرنے کیلئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے کسی بھی سیشن سے غیر حاضر نہیں ہونا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی جس کا پاکستان شکار ہے اس پر بھی بات ہو گی، اسلامو فوبیا سے دنیا بھر سے اپنے وطن چھوڑ کر امریکہ یا لاطینی امریکہ میں ہجرت کرنے والوں کو مختلف قسم کے تعصبات کا سامنا ہے، اس میں لباس، طرز زندگی، عقائد شامل ہیں، یہ لوگ حق حلال کی روزی کما کر اپنے اہل و عیال کا پیٹ پالتے ہیں اور وطن میں موجود اپنے خاندانوں کی کفالت بھی کرتے ہیں، وہ ایسے تعصبات کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

نگراں وزیراعظم نے کہا کہ اکثر اوقات ان لوگوں آواز ایسے فورمز پر نہیں پہنچتی وہاں بطور ریاستی نمائندہ ہمیں رسائی حاصل ہوتی ہے تو اس آواز کو ان فورمز پر پہنچانا ہماری اخلاقی، سیاسی اور آئینی ذمہ داری میں آتا ہے۔ حکومتی اصلاحات کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کی اقتصادی بحالی کے منصوبے کے حوالے سے بھی ایس آئی ایف سی کی تشکیل اس کے خدوخال کے حوالے سے بھی شرکاء کو آگاہ کیا جائے گا، کوشش کریں گے کہ مختلف مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی تقریر میں ان کا احاطہ کیا جائے۔

ڈالر کی قدرکے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ اس حوالے سے بھی ملاقات میں تذکرہ ہوا ہے، آئی ایم ایف کی سربراہ کو اس پر خوشگوار حیرت ہوئی کہ پہلی مرتبہ کسی حکومت نے اس غیر قانونی کاروبار پر ہاتھ ڈالا ہے، حکومت نے ایک جامع انداز میں اس پر کریک ڈائون کیا ہے جس کی وجہ سے مارکیٹ میں مصنوعی عدم استحکام میں کمی آئی، ان سے گفتگو کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ایسے انتظامی معاملات جن میں قانونی طور پر پاکستان کو یہ اختیار ہے کہ وہ اپنی ریگولیٹری انفورسمنٹ کی طرف جائے، اس میں کبھی بھی انہوں نے دخل اندازی کرنے کی کوشش نہیں کی۔

نگراں وزیراعظم نے کہا کہ وہ ہماری معیشت کی بہتری چاہتے ہیں اور جو پیسہ انہوں نے ہمیں دیا ہے وہ اس کا تحفظ چاہتے ہیں، ہم بذات خود بھی اس بات کا یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ معاشی اقتصادی ایجنڈے جس میں ٹیکسیشن، ٹیکس نیٹ کو بڑھانے، محصولات میں اضافے، حکومتی اخراجات میں کمی، حکومتی حجم کو درست کرنے اور نجکاری شامل ہے، توانائی کے شعبہ میں اصلاحات ایجنڈے پر ہیں، یہ ہماری اقتصادی بحالی کے ایجنڈے کا حصہ ہوں گی، اس ایجنڈے پر عالمی مالیاتی اداروں کو ایک اعتماد نظر آیا ہے، انہوں نے پاکستان کی معیشت کے حوالے سے مثبت پیشنگوئیاں بھی کی ہیں۔

بجلی بلز کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہماری اور عالمی مالیاتی فنڈ کی سوچ میں یکسانیت پائی جاتی ہے کہ کیسے پسے ہوئے طبقہ کو وہ مراعات فراہم کی جائیں جس سے ان کی روزمرہ کی زندگی آسان ہو اور وہ لوگ جو صاحب حیثیت ہیں وہ اپنا حصہ ڈالیں اور معاشی طور پر پسے ہوئے طبقہ کی معاشی خوشحالی کیلئے اقدامات تجویز کئے جائیں اس میں بجلی کے صارفین شامل ہیں، آنے والے دنوں میں بجلی کے بلز نسبتاً کم ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ توانائی کے شعبہ کی اصلاحات اہم مسئلہ ہے، جب تک ہم اس جانب نہیں جائیں گے ٹرانسمیشن سے متعلق اداروں کی نجکاری کے بغیر یہ ماڈل نہیں چل سکتا کہ حکومت مہنگی بجلی بنا کر سستے داموں دے، اس میں سے پھر کچھ بجلی چوری ہوتی ہے جبکہ کچھ بدانتظامی کا شکار ہو جاتی ہے اس کی وجہ سے ہم پر سود بڑھ جاتا ہے،

آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کے تحت اگر وہ بجلی پیدا کرتے ہیں یا نہیں کرتے ہمیں انہیں ادائیگیاں کرنا ہوتی ہیں، اس کا کوئی جواز نہیں، اس سائیکل میں اس رویہ کے ساتھ اگلے 50 سال بھی معیشت کو اٹھانے کا دعویٰ جھوٹ ہے، ہمیں خود اور لوگوں سے سچ بولنے کی ضرورت ہے، توانائی کے شعبہ کی اصلاحات ضروری ہیں، اس کا ہم آغاز کریں اور آنے والی حکومت اسے اس کے منطقی انجام تک پہنچائے تاکہ یہ مسئلہ حل ہو، اس سے ہمارے گھریلو، کمرشل، صنعتی اور دیگر مفادات جڑے ہوئے ہیں، یہ حل ہوں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بدترین سیلاب کے بعد عالمی اداروں کی جانب سے 10 ارب ڈالر کے اعلانات کئے گئے تھے، اس پر بھی بات ہو گی، ہم کوشش کریں گے کہ ان وعدوں پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے تاکہ پاکستان کو وعدے کے مطابق رقم کی منتقلی ہو اور سیلاب متاثرین پر خرچ کی جا سکے، یہ رقم بحالی اور تعمیرنو پر خرچ ہو گی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سکھ رہنما کو کینیڈا میں بھارتی ایجنٹوں نے جس طرح قتل کیا ہے بھارت نے بطور ریاست ایک انسانیت کا قتل کیا ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے، ہم اس کو مختلف فورمز پر ضرور اٹھائیں گے اور اس کا مقصد ہندوتوا کے سیاسی ایجنڈے کی گھنائونی سازش سے دنیا کو آگاہ کرنا ہے، یہ گھنائونا کھیل اس خطے اور دنیا کو جنگ کی آگ میں دھکیل سکتا ہے، ہم اس سلسلہ میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے،

اس فورم کے علاوہ بھی جہاں ہمیں موقع ملے گا ہم یہ معاملہ اٹھاتے رہیں گے، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ساتھ بھی ہم نے ہندوتوا شدت پسند نظریہ پر روشنی ڈالی ہے، سکھ رہنما کے قتل کا معاملہ اٹھایا، ہمارے صوبے بلوچستان میں بھی قتل و غارت گری میں ہندوستان کی ریاست براہ راست ملوث پائی گئی ہے، کلبھوش یادیو کی صورت میں ہمارے پاس ثبوت موجود ہیں جنہیں رنگے ہاتھوں پکڑا گیا، ہم بھارت کا یہ چہرہ بھگت رہے ہیں، اب مغربی ممالک بھی نشانہ بن رہے ہیں، ہم طعنہ زنی سے اجتناب کرتے ہوئے انہیں آگاہ کریں گے کہ اس خطرے کو بھانپیں اور اس کو روکنے کی تیاری کریں۔

انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ دہشت گردی کے چیلنج سے پاکستان خود نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور بخوبی نمٹ رہا ہے، دہشت گردوں کو کسی علاقے میں طویل عرصہ تک ٹھہرنے نہیں دیا گیا، اس کے ساتھ ساتھ افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ بھی پاکستان قریبی رابطے میں ہیں، یہ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کیلئے خطرہ ہے، سب کے اس پر تحفظات ہیں کہ یہ کسی بھی وقت ان کی طرف بھی پلٹ سکتے ہے، پاکستان ان کے ساتھ تعاون کر رہا ہے اور دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے ایک پیج پر ہے۔

انہوں نے کہا کہ چین کے حوالے سے جو سوچ ہے وہ تبدیل ہو رہی ہے، چین کی معاشی اور دفاعی ترقی کے حوالے سے لوگوں کی مختلف رائے ہے، امریکی معاشرے میں یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ یہ مسابقتی ترقی ہے اس کو منفی یا دشمنی قرار دینا درست نہیں، ان کی نظر پاکستان جیسے ممالک پر بھی ہو گی کہ ان کا کیا کردار ہے، وہ کس بلاک کی طرف جائیں گے، پاکستان ایک خود مختار ملک ہے جس کے چین کے ساتھ انتہائی گہرے تزویراتی تعلقات ہیں جو آزمودہ ہیں، یہ دوستی تھی اور رہے گی، پاکستان چین کے ساتھ تعلقات کی قیمت پر کسی دوسرے کے ساتھ تعلقات استوار نہیں کر سکتا، اگر اس حوالے سے کسی کی سوچ ہے تو وہ پاکستان کے قومی مفادات کو سمجھ نہیں سکا۔

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کے مغرب اور امریکہ کے ساتھ متنوع شعبوں میں تعلقات ہیں، امریکہ پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے، 10 لاکھ پاکستانی یہاں رہتے ہیں جو امریکہ اور پاکستان میں کردار ادا کر رہے ہیں، پاکستانی طالب علموں کیلئے بہترین درسگاہیں امریکہ کی ہیں، وہ حصول علم کیلئے ان جامعات میں آنا چاہتے ہیں، ہم جمہوری سفر پر گامزن ہیں اور ہم چاہیں گے کہ ہم امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک کی جمہوریتوں سے سیکھیں تاہم ہم چین سے دوری اختیار نہیں کر سکتے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت مغرب کی گود میں بیٹھ کر چین کے راستے کی رکاوٹ بننا چاہتا ہے، کیا اس کے چین کے ساتھ تجارتی تعلقات ختم ہو چکے ہیں، مغرب کو یہ بھی دیکھنا ہو گا۔ انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے فیصلہ کا خیرمقدم کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نگراں حکومت کو آئینی کام جو تفویض کیا گیا ہے وہ اس حوالے سے الیکشن کمیشن سے مکمل تعاون کرے گی، یہ اس کی آئینی ذمہ داری ہے، اب قیاس آرائیوں کا خاتمہ ہو جانا چاہئے۔