28.8 C
Islamabad
اتوار, مئی 11, 2025
ہومعلاقائی خبریںخانہ بدوشوں کی تاریخ،طرز زندگی،معاشرت اور مسائل کا احاطہ کرتی تحریر

خانہ بدوشوں کی تاریخ،طرز زندگی،معاشرت اور مسائل کا احاطہ کرتی تحریر

- Advertisement -

تحریر: ممتاز سلیم لنگاہ

لاہور۔30اپریل (اے پی پی):خانہ بدوش فارسی زبان کا لفظ ہے جس سے مراد وہ شخص جس کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہ ہو۔انگریزی ادب میں اس کے لئے ویگرینٹ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے،خانہ بدوشوں کی طرز زندگی عام افراد سے مختلف ہوتی اور ان کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں ہوتا،خانہ بدوش پسماندہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں،

- Advertisement -

خانہ بدوش جنہیں یورپ میں ”رومانی”اسپین میں ”گیٹانو”ترکی میں ”چنگنے” اٹلی میں زنگارو” فرانس میں” گیٹانو’زگیز اور منائچزز اور برصغیر میں بنجارے کہا جاتا ہے،اسی طرح دنیا کے مختلف علاقوں میں اس کے نام بھی اپنے کلچر کے مطابق ہیں۔ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں خانہ بدوشوں کی تعداد ایک کروڑ سے زیادہ ہے۔دنیا بھر میں80 فیصد خانہ بدوش یورپی ممالک جبکہ باقی20 فیصد امریکہ ،لاطینی امریکہ اور دنیا کے دیگر خطوں میں بستے ہیں،خانہ بدوشوں کیلئے ” بسنے ” کے لفظ سے مراد ان کا عارضی پڑائو ہوتا ہے۔

یہ خانہ بدوش کون ہیں یہ کہاں سے آئے ہیں اور یہ کیسے وجود میں آئے ہیں ‘اس پر ایک عرصہ سے تحقیق ہو رہی ہے۔جہاں تک خانہ بدوشی کی شروعات یا اس کے وجود کا تعلق ہے تو اس کیلئے ہمیں زمانہ قدیم کے انسان کے ساتھ چلنا ہو گا۔

یہ سرشام اپنے ٹھکانے پر واپس آجاتے تھے،پھر کچھ عرصہ بعد ان کا پڑائو کہیں اور منتقل ہو جاتا تھا،اس کے بعد اگلا قدم زراعت کی طرف اٹھا تو انہوں نے اپنا بسیرا بھی کھیتوں کے آس پاس کر لیا اور یوں ”بستیوں” کا رواج پڑ نا شروع ہو گیا،بیشتر قبائل ایسے بھی تھے جو ایک جگہ ٹک کر بیٹھنے کے قائل نہ تھے بلکہ متحرک رہنے کو ترجیح دیتے تھے۔چنانچہ یہیں سے ”خانہ بدوشی ” کا آغاز ہوا۔

خانہ بدوشی کی وجہ سے یہ لوگ نہ تو کہیں مستقل قیام کرتے تھے نہ بستیاں بساتے،نہ دولت جمع کرتے اور نہ ہی جائیدادیں بناتے تھے۔دنیا بھر میں ہر وقت متحرک ہونے کی وجہ سے اگرچہ یہ کئی زبانیں بولتے ہیں لیکن ان کی اپنی زبان”روما” کہلاتی ہے،جس میں برصغیر و پاک و ہندکے کئی الفاظ شامل ہیں ۔جہاں تک ان کی روایات کا تعلق ہے یہ دنیا بھر میں گھومنے کی وجہ سے بہت کم تعلقات بناتے ہیں۔

جس کی بڑی وجہ ان کا اقلیت میں ہونا ہے،اس کے علاوہ ان کا پڑائو عام طور پر آبادیوں سے ہٹ کر ہوتا ہے،اس لیے مقامی لوگوں سے ان کا ملنا جلنا دوسروں کی نسبت کم ہوتا ہے۔اس لیے یہ شادیاں بھی اپنے لوگوں سے ہٹ کر نہیں کر تے ہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ زمانہ ترقی کرتا گیا لیکن انہوں نے اپنا رہن سہن ‘لباس اور طرز زندگی نہیں بدلا۔

یہی وجہ ہے کہ اپنی قدیم روایتی پوشاک’کانوں میں بالیاں اوراپنی مخصوص رنگت کی وجہ سے یہ دور سے ہی پہچانے جاتے ہیں ۔یہ لوگ ملازمت نہیں کرتے کیونکہ پیدائشی طور پر یہ آزاد فطرت لوگ ہیں،اس لیے گزر بسر کرنے کے لیے یہ کھیل تماشہ کرتے اور لوہے کے اوزار بنا کر فروخت کرتے تھے۔ان کی خواتین دھاگہ تیار کر کے کپڑا بناتیں اور روز مرہ کے کاموں میں مردوں کے ہاتھ بٹاتی تھیں۔

یہ لوگ خود بھی تعلیم سے عاری ہوتے اور اپنے بچوں کو بھی تعلیم سے دور رکھتے تھے۔جدید دور میں بھی جب مشرقی یورپ کے ملکوں نے انہیں اپنے ہاں مستقل آباد کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے آزاد رہنے کو ہی ترجیح دی۔انہوں نے اس زمانے میں بھی زندگی گزارنے کا ایک متبادل طریقہ پیش کیا اور وہ یہ کہ ہر قسم کی پابندیوں سے آزاد رہ کر خوشی اور مسرت سے سادہ زندگی گزاری جائے۔

خانہ بدوشوں کی تاریخ چین،وسطی ایشیا،خراساں، کوہ قاف سے لے کر فرانس، اٹلی، سپین اور جرمنی میں بکھرے قبائل کا ذکر تاریخ میں ملتا ہے۔ان میں بہت سے قبائل خانہ بدوشی ترک کر کے مہذب دنیا میں شامل ہو گئے۔غذا اور شکار کے عہد کے بعد جب کچھ قبائل نے زراعت اختیار کرتے ہوئے آبادیاں بسائیں اور مستقل رہائش اختیار کر لی لیکن بہت سے ایسے قبائل بھی تھے جنہوں نے خانہ بدوشی کی زندگی ترک نہیں کی۔

انہوں نے نہ تو آبادیوں میں رہنا پسند کیا اور نہ ہی اپنا خانہ بدوشی کا کلچر چھوڑ کر خود کو بڑی تہذیبوں میں ضم کیا۔اس وجہ سے خانہ بدوشوں اور آبادیوں میں رہنے والوں میں ہمیشہ سے کلچر اور تہذیب کے درمیان تصادم رہا۔بستیوں کے آباد کاروں نے شروع میں انہیں”باربیرین ” یعنی وحشیوں کا خطاب دیا۔پیشہ زراعت اپنانے والے آباد کار مہذب انداز میں اپنے گزر بسر کا اہتمام کرتے رہے جبکہ خانہ بدوش جب گزر بسرکے لیے روزمرہ ضروریات زندگی کو حاصل نہ کر پاتے تو وہ آبادیوں میں لوٹ مار اور بعض اوقات قتل و غارت کو اپنا ذریعہ معاش بنا لیتے ۔یہیں سے خانہ بدوشی دو واضح طبقات میں بدل گئی۔

ایک وہ طبقہ جو بذریعہ تجارت یا فن کے ذریعے عازم سفر کرتا اور دوسرا وہ طبقہ جو لوٹ مار یا غیر قانونی ذرائع سے گزر بسر کرتا ۔وہ طبقہ جو بذریعہ تجارت یا فن جس میں گانا بجانا’ثقافتی کھیل تماشہ وغیرہ کے ذریعے زندگی گزارتا،اس کو مہذب خانہ بدوش یا یورپ میں انہیں جپسی کہا گیا جبکہ دوسرا وہ طبقہ جو لوٹ مار یا غیر قانونی ذرائع سے گزر بسر کرتا اس کو غیر مہذب خانہ بدوش یا باربیرین کہا جانے لگا۔

جپسی پر امن خانہ بدوش ہیں جو لڑائی اور دنگا فساد سے دور رہتے، ان کا ذریعہ معاش میلے ٹھیلے لگا کر لوگوں کو موسیقی سے محظوظ کرنا ‘قسمت کا حال بتانا’مختلف کرتب کرنا ‘کھیل تماشے کے ساتھ ساتھ اپنے ہاتھ کی بنائی ہوئی ثقافتی اشیا کی تجارت کرنا بھی شامل ہے۔جپسی رفتہ رفتہ امریکہ پہنچ گئے ہیں ‘وہاں بھی انہیں جپسی ہی کہا جاتا ہے۔

ماہرین عمرانیات ایک طویل تحقیق کے بعد اس نتیجے میں پہنچے ہیں کہ خانہ بدوش قبائل’ پنجاب ‘راجستھان اور سندھ کے علاقوں سے غالبا کسی بڑی خشک سالی کے باعث نقل مکانی کر کے مختلف ممالک میں پھیلتے چلے گئے۔خانہ بدوش قبائل بذریعہ کوہ ہندوکش مشرق وسطی’یورپ اور پھر پوری دنیا میں پھیل گئے ۔ان کی اپنی نہ تو کوئی تحریری تاریخ ہے اور نہ ہی انہیں اپنے ماضی بارے کوئی معلومات ہیں،اس لیے ماہرین اس بارے کوئی مستند فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں کہ آخر انہوں نے ہجرت کیوں کی اور خانہ بدوشی کا کٹھن راستہ کیوں چننے پر مجبور ہوئے۔خانہ بدوشوں کا ایک اور اہم طبقہ بنجاروں کا تھا۔یہ گاوں ،دیہاتوں سے اناج لے کر قصبوں اور شہروں میں اس کی سپلائی کرتے تھے۔

نظیر آبادی کی مشہور نظم ”بنجارہ نامہ” میں ان اشیا کی مکمل تفصیل ہے جن کی یہ تجارت کرتے تھے۔ان کی تجارت کاخاتمہ اس وقت ہوا جب ہندوستان میں ریلوے آئی اور اب گڈز ٹرین کے ذریعے سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے لگا۔این جی اوز کے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں خانہ بدوشوں کی تعداد 10 ملین سے زیادہ ہے۔ان خانہ بدوشوں کی مختلف برادریاں ہیں جن میں چنگر، اودھ، بھاٹو، جوگی، کینگھر، بازیگر، گرجمار،گگرے شامل ہیں۔

صوبائی لاہور میں خانہ بدوشوں کی تعداد کا تخمینہ پونے تین لاکھ تک لگایا گیا ہے’دریا کے کنارے’ریلوے لائنز ‘سبزی منڈیوںاور دیگر ویران اور گندی جگہوں پر اپنا پڑائو کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ان خانہ بدوشوں کے طرز زندگی اور معاشرت کی بات کریں تو یہ کوئی پختہ مکان تعمیر نہیں کرتے ہیں بلکہ ایک شعر کے ”چار تنکے رکھ لیے جس شاخ پر گھر ہو گیا ”(قمر جلالوی) کے مصداق ہی یہ عارضی جھونپڑیوں اور خیمے لگا کر اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔

گزشتہ دنوں راقم کو خانہ بدوشوں کی طرز زندگی اور درپیش مسائل کا تجربہ ہوا،جب لاہورکے دریائے راوی کے آس پاس رہائش پذیر ان خانہ بدوشوں کے جانے کا اتفاق ہوا اور وہاں موجود خانہ بدوشوں سے ان کی طرز زندگی اور مسائل کے حوالے سے راقم نے استفسار کیا تو ان کا جواب سن کر دل افسردہ ہوا۔ان کے بچوں کی حالت زار نہایت ابتر ہے۔پاوں سلامت ہیں مگر پہننے کو جوتے نہیں۔بدن کے نصف حصے پر کپڑے ہیں مگر میلے کچیلے اور سونے کو نرم بستر نہیں بلکہ کانٹوں بھری زمین ہے۔ان کی طرز زندگی اور مسائل انہی کی زبانی ملاحظہ کریں۔

خانہ بدوشوں کے اس قبیلے کے ایک بزرگ فرد نوشے خان سے جب ان کا تعلق پوچھا گیا کہاں سے ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا ”ہم خانہ بدوش بلوچستان کے دور افتادہ علاقوں سے آئے ہیں اور ہمارا اودھ برادری سے تعلق ہے۔ان کے ذریعہ روزگار کے بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ہم غریب خانہ بدوش صرف بھیک نہیں مانگتے بلکہ کچھ کباڑ کا کام کرتے،کچھ پھیری والے ہیں اور کچھ ڈرائیوری کر کے زندگی بسر کر رہے ہیں،خود کماتے ہیں خود کھاتے ہیں،کوئی تعاون کرنے والانہیں،کچھ نہ میسر ہو تو آرام کی نیند سو جاتے

،بد قسمتی سے خانہ بدوشوں کو ہمارے معاشرے میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا،جب اس حوالے سے ان سے سوال کیا کہ آپ سفر کرتے ہیں تو لوگوں کا آپ کے بارے میں رویہ کیا ہوتا ہے اور لوگ آپ کے بارے میں کیا سوچھتے ہیں؟تو ان کا سادہ جواب ملاحظہ کریں کہ ”کچھ لوگ ہمیں تنگ کرتے ہیں،مگر کچھ اچھے لوگ بھی موجود ہیں،ہمارا رویہ ہر شخص سے اچھا ہوتا ہے،ہر شخص کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں

، کیوں کہ ہم غریب اور بے گھر لوگ کسی سے بحث کریں گے تو اپنا ہی نقصان ہو گا،ان کے بچوں کی تعلیم و تربیت کے بارے میں سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ بچوں کو کیا تعلیم دیں،رہنے کو جگہ ہو گی،کوئی مستقل ٹھکانہ ہو گا تو تعلیم دیں گے۔پیٹ بڑی مشکل سے بھرتا ہے تو تعلیم کیسے دیں گے؟دن کو جاتے ہیں کام پر اور جو لاتے ہیں اس سے ضروریات زندگی کی اشیا لاتے ہیں اور جب کچھ نہ ہو تو یہیں بیاباں علاقے میں پڑے ہیں،کوئی پرسان حال نہیں،کوئی فریاد سننے والا نہیں۔

خانہ بدوش جن کے کئی قبیلے اور برادریاں ہیں ان میں سے زیادہ تر اپنے بچوں کی شادیاں جلدی کر دیتے ہیں’لاہورکے دریائے راوی کے پل پر صدقہ گوشت بیچنے والوں میں کئی کم عمر لڑکیاں نظرآتی ہیں جن کی عمر بمشکل16 سے 18 سال ہوگی لیکن انہوں نے گود میں بچے اٹھائے ہوتے ہیں،اس کی بنیاد پر ایک قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ان کی شادی بھی 14،15 سال کی عمرمیں ہوئی ہوگی۔جب ان کی شادی بیاہ کی رسومات کے حوالے سے سوال کیا تو ان کا کہنا تھا”کہ شادی بیاہ ہماری سادگی کے ساتھ ہوتی ہے،

ہمارے ہاں بچوں اور بچیوں کی شادی جلد کر دی جاتی ہے تاکہ وہ برائیوں سے بچے رہیں،ہم غریب لوگ ہیں اپنے ہی قبیلے میں شادی کرتے ہیں باہر کسی سے رشتہ داری نہیں کرتے،ہمارا جہیز وغیرہ کا کچھ نہیں ہوتا،ہم انگوٹھی پہنا دیتے اور نکاح کر لیتے ہیں۔پاکستان میں 18 سال سے کم عمر لڑکے اور لڑکی کی شادی نہیں ہوسکتی،نکاح خواں کو پابند کیا گیا کہ وہ لڑکی اور لڑکے کی عمر کی تصدیق کے بغیر نکاح نہیں پڑھائیں گے تاہم مختلف خانہ بدوشوں سے بات چیت کے دوران معلوم ہوا کہ ان کے یہاں زیادہ تر شرعی نکاح پڑھایا جاتا ہے جس کے لئے لڑکے اور لڑکی کی عمرکے سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

ان سے جب پوچھا گیا کہ آپ بیمار ہونے کی صورت میں کیسے علاج معالجہ کرتے ہیں ‘توکہتے ہیں ” خانہ بدوشوں کی اکثریت کے پاس قومی شناختی کارڈ نہیں ہیں جس کی وجہ سے یہ کسی بڑے سرکاری/ پرائیویٹ ہسپتال میں علاج کروانے نہیں جا سکتے کیونکہ وہاں رجسٹریشن کے لئے شناختی کارڈ مانگا جاتا ہے،اس لیے ہم حکیموں کے پاس جاتے ہیں یا پھر اپنے گھریلو ٹوٹکے استعمال کرتے ہیں ۔

ان سے جب پوچھا آپ ایک جگہ پر کتنا عرصہ قیام کرتے ہیں؟ تو کہتے ہیں”بیس دن یا ایک ماہ ایک جگہ پر قیام کرتے،پہلے سے کسی جگہ کا انتخاب نہیں کیا ہوتا جہاں سرسبز زمین خالی ہوئی وہیں پر کچھ عرصہ قیام کرتے ہیں،سرد علاقے کو ترجیح دیتے ہیں۔خواتین کی جسمانی صحت کے لئے کام کرنیوالی سماجی کارکن علینہ اظہر نے ”اے پی پی” کو بتایا کہ خانہ بدوش لڑکیوں کو شادی کے بعد کئی سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے،ان میں خون کی کمی ہوتی ہے،کم عمری میں حاملہ ہونے سے اکثر زچہ اور بچہ کی موت ہو جاتی ہے یا پھر پیدا ہونیوالاپہلا بچہ کسی جسمانی اور ذہنی معذوری کا شکار ہوجاتا ہے،پھریہ لوگ اس معذور بچے کو کمائی کا ذریعہ بنا لیتے ہیں،

خانہ بدوش خواتین میں نسوانی بیماریوں کی ایک بڑی وجہ گندگی،حفظان صحت کے اصولوں پرعمل نہ کرنا اورکم عمری کی شادیاں ہیں۔پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ انسٹی ٹیوٹ آف سوشل اینڈ کلچر ل اسٹڈیز کی ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر روبینہ ذاکر نے ”اے پی پی”کو بتایا کہ خانہ بدوشوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے انہیں تعلیم دینے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ کالجز اور جامعات کے طالب علم گرمیوں یا سردیوں کی چھٹیوں میں ان کے پڑائو والے علاقوں میں جا کر رضاکارانہ طور پر بچوں کو پڑھائیں،ان خانہ بدوشوں کو تعلیمی سرٹیفکیٹس دینے کا بھی کوئی لائحہ عمل ترتیب دیا جائے اور جب تک ایسا ممکن نہیں ہوتا تو خانہ بدوشوں کو نصابی کتابوں کا حصہ ضرور بنایا جائے۔

انہوں نے بتایا کہ نیپال،سوئیڈن اور کچھ دوسرے ممالک میں بھی خانہ بدوشوں کے حقوق سے متعلق ایسے قوانین بن چکے ہیں اور پاکستان میں بھی ایسے قوانین تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔نادرا سمیت دیگر متعلقہ اداروں کو سفر کرنے والے کارکنوں کے لیے مقامی گھر رجسٹریشن مہم چلانی چاہیے۔

Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=461779

- Advertisement -
متعلقہ خبریں
- Advertisment -

مقبول خبریں