اسلام آباد۔8مارچ (اے پی پی):خاتون اول بیگم ثمینہ عارف علوی نے کہا ہےکہ پاکستان میں خواتین کے حقوق کو یقینی بنانے، فروغ دینے اور ان کے تحفظ کے لیے موثر قانون سازی اور پالیسی سے متعلق اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں، حکومت، انسانی حقوق، موسمیاتی تبدیلی، سماجی تحفظ، تعلیم، صحت،، ڈیزاسٹر مینجمنٹ سمیت دیگر پالیسی معاملات میں خواتین کی شرکت کو یقینی بنا رہی ہے۔وہ قائداعظم انٹرنیشنل ہسپتال میں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ایک تقریب سے خطاب کر رہی تھیں۔
بیگم عارف علوی نے کہا کہ پوری دنیا اور حکومت پاکستان ہر سال خواتین کی سماجی، اقتصادی اورثقافتی کامیابیوں کا جشن مناتی ہے۔ یو این ویمن کی جانب سے اس سال کا تھیم "ڈیجیٹل: صنفی مساوات کے لیے جدت اور ٹیکنالوجی” تھا۔انہوں نے خواتین کے حقوق کے تحفظ اور محفوظ ڈیجیٹل سپیس کے ذریعے تشدد کے خاتمے کے لیے قومی اور بین الاقوامی وعدوں کی بھی توثیق کی۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ دن اب تک کی پیشرفت کا جائزہ لینے اور خواتین کے حقوق اور عوامی زندگی کے تمام پہلوئوں میں فیصلہ سازی میں مساوی شرکت کی راہ میں حائل چیلنجوں پر غور کرنے کا ایک اہم موقع ہے۔خاتون اول نے عظیم رہنما قائداعظم کا حوالہ بھی دیا جنہوں نے کہا تھا کہ کوئی بھی قوم اس وقت تک عظمت کی بلندی پر نہیں پہنچ سکتی جب تک آپ کی خواتین آپ کے شانہ بشانہ نہ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا آئین مرد اور عورت دونوں کو بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔
بیگم عارف علوی نے کہا کہ پاکستان نے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ، بیجنگ پلیٹ فارم فار ایکشن، خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیازی سلوک کے خاتمہ کےکنونشن، اور پائیدار ترقی جیسے صنفی مساوات اور خواتین کے حقوق کے لیے کئی اہم بین الاقوامی وعدوں پر عمل درآمد یقینی بنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں خواتین کے حقوق کے تحفظ اور ضمانت کے لیے پاکستان میں متعدد اقدامات کیے گئے ہیں۔قومی وعدوں میں خواتین کی ترقی اور بااختیار بنانے کی قومی پالیسی، انسانی حقوق پر قومی ایکشن پلان، صنفی مساوات کی پالیسی کے فریم ورک اور خواتین کو بااختیار بنانے کے پیکج شامل ہیں۔
بیگم علوی نے کہا کہ پاکستان میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک مضبوط قانون سازی کا ڈھانچہ بھی موجود ہے جس میں فوجداری قانون (ترمیمی) ایکٹ (غیرت کے نام پر ہونے والے جرائم کی روک تھام، عصمت دری، غیرت کے نام پر قتل، تیزاب گردی سے متعلق جرائم کی روک تھام) شامل ہیں۔ خواتین کے املاک کے حقوق (ترمیمی) ایکٹ، 2021 کا نفاذ اور حال ہی میں نافذ کردہ ‘انسداد عصمت دری (تحقیقات اور مقدمہ) ایکٹ 2021’ اور ‘کام کی جگہ پر خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف تحفظ (ترمیمی) ایکٹ 2022’ شامل ہے۔تقریب میں قائد اعظم ہسپتال کے سی ای او ڈاکٹر شوکت علی، طبی ماہرین، خواتین ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف نے شرکت کی۔
خاتون اول نے کہا کہ خواتین کے ہر قسم کے امتیازی سلوک سے تحفظ کے لیے قوانین کا باقاعدہ جائزہ لیا جاتا ہے جس میں صنفی بنیاد پر تشدد پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔انہوں نے "احساس پروگرام، مائیکروفنانس کے مواقع، زمین اور جائیداد کے وراثت کے حقوق کے ساتھ ساتھ، کام کی جگہ پر کام کے لیے سازگار ماحول کو فعال کرنے جیسے سماجی تحفظ کے اقدامات کے آغاز اور مضبوطی کے ذریعے خواتین کو معاشی طور پر بااختیار بنانےکےعمل پر روشنی ڈالی۔
خاتون اول نے کہا کہ صدر عارف علوی کی سرپرستی میں اور خود سماجی شعبے میں خاص طور پر چھاتی کے کینسر سے متعلق آگاہی، خواتین کی مالی شمولیت، خصوصی افراد اور دماغی صحت سے متعلق مسائل کے حوالے سے ملک گیر سطح پر بڑے پیمانے پر آگاہی کی ایک منظم مہم چلائی گئی جس کا مقصد خواتین اور لڑکیوں کو ابتدائی علامات کے بارے میں آگاہ کرنا اور انہیں ماہانہ چھاتی کا خود معائنہ کرانے کی ترغیب دینا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ حال ہی میں کئے گئے ایک مطالعہ کے میں انکشاف ہوا کہ 32 فیصدنے چھاتی کے کینسر کے بارے میں معلومات کا سب سے بڑا ذریعہ میڈیا کو قرار دیا۔اس تحقیق میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی کہ خواتین کی چھاتی کے الٹراسائونڈ اور میموگرافی کی اسکریننگ میں پچھلے سالوں کے مقابلے می میں تقریباً 3 گنا اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم ذہنی صحت پر بھی کام کر رہے ہیں۔ ہمیں لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہماری خواتین اتنی مضبوط ہوں کہ وہ زندگی کے چیلنجوں کا مقابلہ کر سکیں۔بیگم عارف علوی نے اس بات پر زور دیا کہ انہیں اپنی خواتین کو پیشہ ورانہ مہارتوں سے آراستہ کرنے کے لیے ان کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے اور انہیں معاشی استحصال سے بچانے کے لیے مسلسل کوششیں کرنی چاہئیں۔انہوں نے پاکستان میں صنفی مساوات کے فروغ کے لیے کام کرنے والے بین الاقوامی شراکت داروں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کی بھی تعریف کی۔اس موقع پر دیگر مقررین نے محفوظ، قابل بھروسہ اور معکوس مانع حمل طریقوں تک رسائی بڑھانے کی ضرورت پر روشنی ڈالی، جس سے پاکستان میں زچگی کی شرح اموات، غذائی قلت اور سٹنٹنگ کو کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
انہوں نے زچگی کی شرح اموات کو کم کرنے، صحت، تعلیم اور روزگار کے مواقع تک ان کی رسائی کو بہتر بنانے کے علاوہ انہیں کام کی جگہوں پر محفوظ اور سازگار ماحول فراہم کرنے کے لیے کمیونٹی کی شمولیت کی ضرورت پر زور دیا۔