خیبر پختونخوا کے مالی سال 26-2025 کےلیے صوبائی بجٹ کے اہم نکات

24

پشاور۔ 13 جون (اے پی پی):خیبر پختونخوا کے وزیر خزانہ آفتاب عالم نے جمعہ کو مالی سال 26-2025 کےلیے صوبائی بجٹ پیش کیا. صوبائی بجٹ کے اہم نکات ذیل ہیں.
1. بجٹ کا کل حجم 2119 ارب روپے ہے۔
2. یہ ایک سرپلس بجٹ ہے جس میں کوئی نیا ٹیکس شامل نہیں ہے۔
3. خیبرپختونخوا حکومت کے ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اور پنشن میں 7 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔
4. نئے مالی سال کے لیے تخمینہ شدہ سالانہ اخراجات 1962 ارب روپے ہوں گے، جس میں 157 ارب روپے کا سرپلس ہوگا۔
5. وفاقی حکومت سے ضم شدہ قبائلی اضلاع کے لیے 292.340 ارب روپے کا ریونیو متوقع ہے، جس میں 80 ارب روپے موجودہ بجٹ گرانٹ، 39.600 ارب روپے سالانہ ترقیاتی پروگرام، اے آئی پی کے تحت 50 ارب روپے، دیگر صوبوں سے تین فیصد حصہ کے طور پر 42.740 ارب روپے اور ٹی ڈی پیز کے لیے 17 ارب روپے شامل ہیں۔
6. خیبر پختونخوا حکومت کو پی ایس ڈی پی سے 3.293 ارب روپے، وفاقی وصولیوں سے 1506.92 ارب روپے، صوبائی اپنی وصولیوں سے 129 ارب روپے اور دیگر وصولیوں سے 10.250 ارب روپے ملنے کی توقع ہے۔

7. ضم شدہ اضلاع کی وصولیوں سے 291.340 ملین اور وفاقی منصوبوں کی امداد سے 177.188 ملین روپے کا بھی اعلان کیا گیا۔
8. دہشت گردی کے خلاف جنگ پر قابل تقسیم پول کے ایک فیصد سے 137.912 ارب روپے، گیس اور تیل کی رائلٹی کی مد میں براہ راست منتقلی کے طور پر 57.115 ارب روپے، تیل پر ونڈفال لیوی کے طور پر 58.151 ارب روپے، موجودہ سال کے خالص ہائیڈل منافع کے طور پر 34.580 ارب روپے اور خالص ہائیڈل منافع کے بقایاجات کے طور پر 71.410 ارب روپے اکٹھے کیے جائیں گے۔
9. نئے مالی سال کے لیے ٹیکس نیٹ کی بنیاد کو 83.500 ارب روپے کی ٹیکس وصولیوں اور 45.500 ارب روپے کی نان ٹیکس وصولیوں کے ساتھ بڑھایا گیا ہے۔

10. 10.25 ارب روپے کی دیگر وصولیوں میں 0.250 ارب روپے کی کیپٹل وصولیاں اور 10 ارب روپے دیگر ذرائع اور 1147.761 ارب روپے وفاقی ٹیکس اسائنمنٹ کے طور پر شامل ہوں گے۔
11. سیٹلڈ علاقوں کے لیے موجودہ اخراجات 1255 ارب روپے ہوں گے، جس میں صوبائی تنخواہوں سے 288.514 ارب روپے، تحصیل تنخواہوں سے 288.609 ارب روپے، پنشن سے 190.297 ارب روپے، نان سیلری سے 334.028 ارب روپے، ایم ٹی آئیز کے اخراجات سے 65.657 ارب روپے، نان سیلری اخراجات تحصیل سے 37.545 ارب روپے، کیپٹل اخراجات سے 40.350 ارب روپے اور دیگر ذرائع سے 10 ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

12. ضم شدہ علاقوں کے موجودہ اخراجات کا تخمینہ 160 ارب روپے ہے، جس میں 56.842 ارب روپے صوبائی تنخواہیں، 46.865 ارب روپے تحصیل تنخواہیں، 4.670 ارب روپے پنشن، 24.285 ارب روپے نان سیلری، 17 ارب روپے ٹی ڈی پیز اور 10.339 ارب روپے نان سیلری اخراجات تحصیل شامل ہیں۔
13. آئندہ سال کے لیے ترقیاتی اخراجات کے لیے 547 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جس میں 195 ارب روپے پی اے ڈی پی، 39 ارب روپے ڈسٹرکٹ اے ڈی پی، 39.600 ارب روپے ضم شدہ قبائلی اضلاع اے ڈی پی، 92.740 ارب روپے اے آئی پی، 177.188 ارب روپے غیر ملکی منصوبوں کی امداد اور 3.472 ارب روپے وفاقی پی ایس ڈی پی شامل ہیں۔

14. 129 ارب روپے کا ریونیو اکٹھا کیا جائے گا جس میں 17 ارب روپے ڈیٹ مینجمنٹ فنڈ کے تحت، معدنیات اور معدنی شعبے میں سیمنٹ رائلٹی سے 7.2 ارب روپے اور کے پی آر اے کے ذریعے 4.8 ارب روپے اضافی ٹیکس شامل ہیں۔
15. حکومت نے رہائشی اور کمرشل پلاٹوں کی منتقلی اور الاٹمنٹ پر سٹامپ ڈیوٹی کو دو فیصد سے کم کر کے ایک فیصد کر دیا ہے اور 4.9 مرلے تک کے رہائشی اور کمرشل پلاٹوں پر پراپرٹی ٹیکس معاف کر دیا ہے۔
16. ہوٹل بیڈ ٹیکس 10 فیصد سے کم کر کے سات فیصد کر دیا گیا ہے جبکہ 36000 روپے ماہانہ آمدنی والے افراد پر پروفیشنل ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے۔
17. ماحول دوست الیکٹرک ٹرانسپورٹ پر ٹیکس معاف کرنے اور سابق فاٹا اور پاٹا کے لیے ٹیکس میں ریلیف برقرار رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے، جس میں کوئی نیا ٹیکس شامل نہیں ہے۔
18. صحت کا بجٹ 276 ارب روپے تک بڑھا دیا گیا ہے جو کہ 19 فیصد زیادہ ہے جبکہ صحت کارڈ پلس کا بجٹ 35 ارب روپے تک بڑھا دیا گیا ہے جو کہ 25 فیصد زیادہ ہے۔

19. ضم شدہ علاقوں کے لیے صحت سہولت پروگرام کے لیے 6 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جس میں بنیادی اور دیہی ہیلتھ یونٹس کے لیے 1200 ملین روپے اور پانچ اضلاع میں نوزائیدہ بچوں کے لیے صحت کی دیکھ بھال کے مراکز کا قیام شامل ہے۔
20. مردان، بنوں میں پی آئی سی کے کارڈیک یونٹس کا قیام، اپر چترال میں نرسنگ کالج، کرم میں صدہ ہسپتال کی اپ گریڈیشن اور اورکزئی میں ڈبوری ہسپتال کی تعمیر نو اور تزئین و آرائش کا اعلان کیا گیا ہے۔
21. ایلیمنٹری اور سیکنڈری ایجوکیشن کے بجٹ میں 11 فیصد اضافہ کیا گیا ہے اور اس کےلیے 363 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
22. تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کیا گیا ہے۔

23. 32,500 سرکاری اسکولوں کو ضروری سہولیات کے لیے 5.9 ارب روپے مختص کر کے اپ گریڈ کیا جائے گا۔
24. گزشتہ سال کے 36 ارب روپے کے مقابلے میں آئندہ مالی سال کے لیے اعلیٰ تعلیم کے لیے 50 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
25. یونیورسٹیوں کا بجٹ 3 ارب روپے سے بڑھا کر 10 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔
26. پانچ نئے کالجوں کی تعمیر کے لیے 3.5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
27. سرکاری کالجوں کو اپلائیڈ سائنس اور ٹیکنالوجی کے مراکز میں تبدیل کرنے کے لیے 2772 ملین روپے مختص کیے گئے ہیں۔
28. اسکالرشپ اینڈومنٹ فنڈ میں 1224 ملین روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔
29. مقامی حکومتوں کے محکمے اور دیہی ترقی کے لیے 55.39 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
30. شمالی اضلاع کے لیے 6159 ملین روپے، جنوبی اضلاع کے لیے 3300 ملین روپے، مرکزی اضلاع کے لیے 5300 ملین روپے اور ضم شدہ اضلاع کے لیے 2950 ملین روپے کا اعلان کیا گیا ہے۔

31. مختلف اضلاع میں پبلک پارکس کی تعمیر کے لیے 2 ارب روپے، پشاور، چارسدہ، سوات، ہری پور اور ڈیرہ اسماعیل خان میں ذبح خانوں کی تعمیر کے لیے 800 ملین روپے کا اعلان کیا گیا ہے۔
32. ڈیری ڈویلپمنٹ اور لائیو سٹاک کے لیے 17 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
33. صوبے کے چار اضلاع میں گھوڑوں کے افزائش کے منصوبوں کے لیے 500 ملین روپے کا اعلان کیا گیا ہے۔
34. مویشیوں کی پیداوار بڑھانے کے لیے 1 ارب روپے استعمال کیے جائیں گے۔
35. ویٹرنری مراکز کی تعمیر کے لیے 1 ارب روپے اور ضم شدہ اضلاع کے لیے غربت کے خاتمے اور مقامی معیشت کی معاونت کے لیے 300 ملین روپے کا اعلان کیا گیا ہے۔

36. پولیس کے لیے 158 ارب روپے، گولہ بارود، گاڑیوں اور دیگر ضروری ساز و سامان کی خریداری کے لیے 13 ارب روپے کا اعلان کیا گیا ہے۔
37. سیف سٹی پراجیکٹ کے لیے کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر قائم کرنے اور اسے مزید تین اضلاع تک توسیع دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔
38. مواصلات اور تعمیرات کے لیے 123 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
39. پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے لیے 32 ارب روپے، آبپاشی کے لیے 46 ارب روپے، ہاؤسنگ کے لیے 1.04 ارب روپے کا اعلان کیا گیا ہے۔
40. صنعتوں کے لیے 2.70 ارب روپے، زکوٰۃ، عشر اور خصوصی تعلیم کے لیے 19.11 ارب روپے، کھیلوں اور نوجوانوں کے امور کے لیے 11.6 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
41. کم از کم اجرت 36000 روپے سے بڑھا کر 40000 روپے کر دی گئی ہے، سرکاری ملازمین کے لیے ڈسپیریٹی ریڈکشن الاؤنس 15 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کر دیا گیا ہے۔

42. خیبرپختونخوا پولیس کے کانسٹیبل سے انسپکٹر تک کی تنخواہیں پنجاب پولیس کے برابر کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
43. کانسٹیبل، اے ایس آئی اور انسپکٹر کے شہید پیکیج کو 10 ملین روپے سے بڑھا کر 11 ملین روپے کر دیا گیا ہے. ڈی ایس پی اور اے ایس پیز کے لیے 16 ملین روپے، ایس پیز، ایس ایس پیز اور ڈی آئی جی رینک کے افسران کے لیے 21 ملین روپے کے علاوہ بالترتیب 5، 7، 10 مرلے اور ایک کنال کے پلاٹوں کی الاٹمنٹ کا اعلان کیا گیا ہے۔