پشاور۔ 21 ستمبر (اے پی پی):خیبرپختونخوا اسمبلی نے 2018 سے 2023 کے درمیان شفافیت اور معلومات تک رسائی کے معاملے میں سبقت حاصل کرتے ہوئے پاکستان کی تین دیگر صوبائی اسمبلیوں کو پیچھے چھوڑ دیا ۔پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی(پلڈاٹ) کی جمعرات کو جاری کردہ رپورٹ کے مطابق کے پی اسمبلی نے معلومات تک رسائی پر شفافیت کے لحاظ سے سب سے زیادہ 11 میں سے 8.5 اسکور کیے ہیں یہ واحد اسمبلی تھی کہ جس نے ایوان کی کارروائی کا براہ راست ٹیلی کاسٹ فراہم کیا، دوسری جانب جب پنجاب اسمبلی نے 2002 میں لائیو نشریات کا آغاز کیا تھا تو صوبائی اسمبلی نے اسے 2021 میں معطل کر دیا تھا اور اس پریکٹس کو پھر دوبارہ بحال نہیں کیا پنجاب اسمبلی نے 11 میں سے 7 اسکور کیے، حالانکہ یہ واحد اسمبلی تھی جس نے اراکین پارلیمنٹ کی حاضری کا مکمل ریکارڈ فراہم کیا۔
اس پیمانے پر تیسرے نمبر پر آنے والی اسمبلی بلوچستان کی تھی جس کا اسکور 6.5 تھا جبکہ سندھ اسمبلی 5.5 کے اسکور کے ساتھ سب سے نچلے درجے پر تھی۔پلڈاٹ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ بلوچستان اسمبلی واحد مقننہ تھی جس نے 12 اگست کو اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی جبکہ پنجاب اسمبلی 14 جنوری، خیبرپختونخوا اسمبلی 18 جنوری اور سندھ اسمبلی 11 اگست کو قبل از وقت تحلیل ہو گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سندھ اسمبلی نے پانچ سالہ مدت کے دوران سب سے زیادہ 326 اجلاس منعقد کیے، اوسطاً ہر سال 65 اجلاس بلائے گئے۔ دریں اثناء پنجاب اسمبلی کا اجلاس 274 دن تک جاری رہا جس میں سالانہ اوسطاً 62 اجلاس ہوئے۔
کے پی اسمبلی نے سالانہ اوسطاً 56 اجلاسوں کے ساتھ 248 اجلاس بلائے اور بلوچستان اسمبلی نے سالانہ 48 کے اوسط کے ساتھ 241 اجلاس منعقد کئےاس مناسبت سے سندھ اسمبلی کا اجلاس زیادہ تر اوقات کار یعنی 921 گھنٹے کے لیے بلایا گیا تھا، جس میں سالانہ اوسطاً 184 گھنٹے اور 20 منٹ تھےاس کے بعد بلوچستان اسمبلی کا اجلاس 581 گھنٹے 18 منٹ کے لیے بلایا گیا جس کا اوسط سالانہ 116 گھنٹے تھا کے پی اسمبلی کا اجلاس سالانہ اوسطاً 130 گھنٹے کے ساتھ 574 گھنٹے اور 27 منٹ اور پنجاب اسمبلی کا اجلاس اوسطاً 120 گھنٹے اور 12 منٹ سالانہ کے ساتھ 530 گھنٹے 47 منٹ پر ہوا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان اسمبلی نے وزرائے اعلیٰ کی حاضری کے لحاظ سے دیگر تینوں سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ بلوچستان میں وزرائے اعلیٰ نے 31 فیصد اجلاسوں میں شرکت کی، اس وقت کے وزیراعلیٰ جام کمال خان نے اپنے دور میں 33 فیصد اجلاسوں میں شرکت کی اور ان کے جانشین میر عبدالقدوس بزنجو نے اپنے دور میں 18 فیصد اجلاسوں میں شرکت کی جام کمال خان نے 24 اکتوبر 2021 کو وزیراعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور بزنجو کو پانچ دن بعد صوبے کا چیف ایگزیکٹو مقرر کیا گیا۔
سندھ میں اس وقت کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے 26 فیصد اجلاسوں میں شرکت کی گزشتہ سال 28 مارچ کو وزیراعلیٰ کے عہدے سے سبکدوش ہونے والے عثمان بزدار نے تین سال اور سات ماہ پر محیط اپنے دور میں صرف 10 فیصد نشستوں میں شرکت کی جبکہ 16 اپریل 2022 کو وزیراعلیٰ منتخب ہونے والے حمزہ شہباز نے ساڑھے تین ماہ کے عرصہ کے دوران 57 فیصد نشستوں میں شرکت کی آخری وزیراعلیٰ پرویز الٰہی، جنہوں نے 26 جولائی کو حمزہ کی جگہ لی، اپنے ساڑھے پانچ ماہ کے دور میں 23 فیصد اجلاسوں میں شرکت کی۔2018 اور 2023 کے درمیان اس وقت کے کے پی کے وزیر اعلیٰ محمود خان نے سب سے کم حاضری حاصل کی، وہ اپنے چار سال اور پانچ ماہ کے دور میں صرف 8 فیصد اجلاسوں میں موجود تھے۔
اپوزیشن رہنماؤں کی حاضری کے لحاظ سے بلوچستان بھی سرفہرست رہا، ملک سکندر خان نے اسمبلی کے دور میں 63 فیصد نشستیں حاصل کیں ان کے بعد سندھ کے دو سابق اپوزیشن لیڈر پی ٹی آئی کے حلیم عادل شیخ اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رانا انصار تھے جنہوں نے اسمبلی کے دور میں 56 فیصد اجلاسوں میں ایک ساتھ شرکت کی کے پی اسمبلی میں سابق اپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی نے 38 فیصد اجلاسوں میں شرکت کی اور پنجاب میں دو سابق اپوزیشن لیڈرز – پی ٹی آئی کے سبطین خان اور مسلم لیگ ن کے حمزہ – نے اپنے مشترکہ دور میں 12 فیصد اجلاسوں میں شرکت کی۔پلڈاٹ کے مطابق اگرچہ کے پی اسمبلی اپنی مدت ختم ہونے سے سات ماہ قبل تحلیل ہو گئی تھی،
لیکن مقننہ نے چار سال اور پانچ ماہ پر محیط مدت کے دوران 188 بل منظور کیے – جو کہ سالانہ اوسطاً 43 بل ہیں اسی طرح پنجاب اسمبلی نے سالانہ اوسطاً 41 بلوں کے ساتھ 180 بل، سندھ اسمبلی نے سالانہ اوسطاً 30 بلوں کے ساتھ 149 بل اور بلوچستان اسمبلی نے سالانہ اوسطاً 19 بلوں کے ساتھ 96 بل منظور کئے۔