اقوام متحدہ ۔2جولائی (اے پی پی):اقوام متحدہ کی ماہرفرانسسکا البانیز نے 60 ایسی بڑی کمپنیوں کا نام اس فہرست میں شامل کیا ہے جو مبینہ طور پر اسرائیل کو مدد کر رہی ہیں۔العربیہ کے مطابق یہ مدد اس کی غزہ میں جنگی کارروائیوں اور مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی بستیاں قائم کرنے کے لیے ہے۔اقوام متحدہ کی ماہر نے ان کمپنیوں کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ اس تعاون کو نسل کشی کی مہم میں شامل ہونے کا نام دیا ہے۔اٹلی سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی وکیل اور اقوام متحدہ کے لیے بطور ماہر کام کرنے والی فرانسسکا البانیز نے کہا ہے کہ انہوں نے فلسطینی سرزمین کے حوالے سے 200 نکات پر مبنی رپورٹ مکمل کی ہے۔
یہ رپورٹ انسانی حقوق کے محافظوں، کمپنیوں اور اساتذہ کی طرف سے ہے۔یہ رپورٹ شائع کی گئی ہے۔ جس میں اسرائیل کے ساتھ تعاون، مدد اور کاروبار میں موجود کمپنیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اپنی ڈیلنگ کو روک دیں۔ کیونکہ اس صورت میں انہیں بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کے الزامات کے تحت احتساب کا سامنا کرنا ہوگا۔غزہ میں زندگی مکمل طور پر مفلوج اور تباہ ہو چکی ہے۔ جبکہ مغربی کنارے میں بھی اسرائیلی فوج کے حملے بڑھ رہے ہیں۔ اس رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی فوج کی طرف سے فلسطینیوں کی نسل کشی جاری ہے کیونکہ یہ ان میں سے بہت سوں کے لیے پرکشش کام ہے۔27 افراد پر مشتمل اس رپورٹ میں فرانسسکا البانیز نے لکھا ہے کہ میں ان کارپوریٹ شعبے کی کمپنیوں پر یہ الزام لگاتی ہوں جو اسرائیل کی مدد کر کے فوجی کارروائیوں کا باعث بن رہی ہیں۔
اس رپورٹ میں اسرائیل کی مددگار بین الاقوامی کمپنیوں کو ان کے شعبوں کے اعتبار سے مختلف گروپوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ فوج اور ٹیکنالوجی سے متعلق کمپنیوں کو ایک گروپ میں شامل کیا گیا ہے۔ لیکن یہ ہر کمپنی کے لیے واضح طور پر نہیں کہا گیا کہ وہ ناجائز یہودی بستیوں کے لیے مددگار ہیں یا غزہ میں جاری جنگ کے سلسلے میں مدد کر رہی ہیں۔اقوام متحدہ کی ماہر نے اپنی رپورٹ میں 15 کاروباری کمپنیوں کو براہ راست اسرائیل کی مدد کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ تاہم فرانسسکا البانیز نے اپنی رپورٹ میں ان کمپنیوں کا جواب شامل نہیں کیا۔جن ہتھیار بنانے والی کمپنیوں کا نام رپورٹ میں شامل کیا گیا ہے۔
ان میں ‘لاک ہیٹ مالٹن’ اور ‘لیونارڈو’ نامی کمپنیاں شامل ہیں۔ رہورٹ کے مطابق غزہ میں استعمال کرنے کے لیے اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرتی ہیں۔فہرست میں بھاری مشینری فراہم کرنے والی کمپنیوں میں سے ‘کیٹرپلر’ اور ‘ایچ ڈی ہنڈائے’ شامل ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کمپنیوں کے فراہم کردہ آلات فلسطینی شہریوں کی پراپرٹیز اور املاک کو تباہ کرنے کے لیے کام آرہی ہیں۔’کیٹر پلر’ نے ماضی میں یہ کہا تھا کہ اس کی مصنوعات بین الاقوامی قانون کے مطابق استعمال ہو رہی ہیں۔ تاہم ان کمپنیوں میں سے کسی نے بھی فوری طور پر جواب نہیں دیا ہے کہ وہ نسل کشی میں مصروف اسرائیل کی مدد کیوں کرتی ہیں۔ٹیکنالوجی کے میدان میں بڑے ناموں ‘الفیبیٹ، ایمازون، مائیکروسافٹ اور آئی بی ایم’ کو اسرائیل کو جاسوسی و نگرانی کے لیے آلات فراہم کرنے کا ذمہ دار بنایا گیا ہے۔’ایلفابیٹ’ نامی کمپنی کو اس سے پہلے بھی اسی الزام کے تحت دیکھا جا چکا ہے۔
تاہم اس کمپنی نے اس سے پہلے یہ جواب دیا تھا کہ اس کا معاہدہ اسرائیلی حکومت کے ساتھ ہے۔ جس کی مالیت 1.2 ملین بنتی ہے اور وہ براہ راست فوج کو کوئی مدد نہیں دیتی۔’پلانٹیر ٹیکنالوجی’ پر الزام ہے کہ وہ مصنوعی ذہانت سے متعلق آلات اسرائیل کو فراہم کرتی ہے۔اس رپورٹ کو اقوام متحدہ نے سابقہ مباحثوں کے ساتھ جوڑا ہے جس میں ان کمپنیوں کا ذکر ہے کہ وہ اسرائیل کی ناجائز یہودی بستیوں میں اسرائیل کی مدد کرتی ہیں۔
بعدازاں جون 2023 میں ان کمپنیوں سے متعلق معلومات کو اپ ڈیٹ کیا گیا اور اس میں مزید کچھ کمپنیوں کو اسرائیل کی مدد کرنے کی وجہ سے شامل کیا گیا۔یہ رپورٹ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے لیے کمیشن کے 47 ارکان میں تقسیم کر دی گئی ہے۔ تاہم اقوام متحدہ کے اس ادارے کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ اس کی رپورٹ کو تمام ممالک اپنے لیے لازمی فرض کے طور پر دیکھیں۔