فیصل آباد۔ 18 دسمبر (اے پی پی):جامعہ زرعیہ فیصل آباد کے ماہرین زراعت نے بتایا کہ دیمک نہ صرف درختوں بلکہ عمارات، دروازوں، کھڑکیوں کے ساتھ ساتھ کتابوں اور فرنیچر پر بھی حملہ آور ہوتی ہے جبکہ دیمک کی دنیا بھر میں 4 ہزار سے زائد اقسام ہیں جن میں سے پہچانی جانیوالی 2600اقسام کو4 بڑے گروپوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ انہوں نے نئی عمارات بنانیوالوں پر زور دیا کہ وہ عمارت کی بنیادیں کھودنے کے بعد ان کے کچھ حصوں میں زہرکا سپرے کروائیں جسکی مقدار ایک چوتھائی لیٹر فی مربع میٹرہونی چاہئے اورپکی بنیادمکمل ہونے کے بعد سلیب پڑ جائے تب دوسرا سپرے ضرور کروائیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہر سال مجموعی ملکی غذائی پیداوار کا ایک تہائی حصہ کیڑے مکوڑوں کی نذر ہونے سے سالانہ اربوں روپے کانقصان برداشت کرنا پڑرہا ہے نیز جس طرح ڈینگی کا باعث بننے والے مچھر کے لائف سرکل اور ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے شعبوں میں زرعی جامعہ کے ماہرین کی خدمات کو قومی سطح پر سراہا گیا تھا اسی طرح وہ توقع رکھتے ہیں کہ عمارتوں سے دیمک کے خاتمے کے حوالے سے بھی مذکورہ ادارے کے کردار کو پذیرائی حاصل ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ عمارتوں میں مٹی کی بھرتی ڈلوانے کے بعد جب مٹی کو دبانے کیلئے پانی چھوڑا جائے تو اس پانی کے ساتھ زہر ملادیا جائے تاکہ وہ یکساں مٹی میں جذب ہوسکے۔
انہوں نے بتایا کہ جب لکڑی کا کام کروانا ہواس جگہ پر پہلے سپرے کروالیں اور جس لکڑی کے حصے کو دیوار کے اندر یا زمین میں لے جانے کی ضرورت ہو اس حصے کو زہر، پلاسٹر آف پیرس یا تارکول میں زہرملا کر لگا لیں تاکہ دیمک سے بچاؤ ممکن ہو سکے۔انہوں نے بتایاکہ چند دہائیاں قبل تک ملک کے بالائی علاقوں سے کاٹی جانیوالی لکڑی مہینوں میں زیریں علاقوں تک پہنچتی تھی لیکن اب فرنیچر اور گھریلو استعمال میں لائی جانیوالی لکڑی کو کاٹنے کے دوسرے ہی روز مختلف اشیاءکا حصہ بنا دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے اسے سوکھنے کا خاطر خواہ ٹائم دستیاب نہیں ہوتا ،نتیجے میں بہت جلد ایسی لکڑی پر دیمک حملہ آور ہونے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔