اسلام آباد۔19دسمبر (اے پی پی):سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہا ہے کہ ذاتی حملوں کی بجائے ایشوز پر بات کرنے سے ایوان خوشگوار ماحول میں چل سکتا ہے ،تلخیاں کم کرنے کے لئے مل جل کر کام کرنا ہے،پارلیمان میں ایشوز کو زیر بحث لایا جائے، پروڈکشن آرڈز جیسے ایشوز پر کوشش ہوتی ہے کہ پہلے غلط ہوا ہے تو اب نہیں ہونا چاہیے، چاروں صوبوں ،آزاد کشمیر،گلگت بلتستان اسمبلیوں کے مابین تعاون،ہم آہنگی کو یقینی بنانے کے لئے سیکرٹریز، چیف وہپس اور پی اے سی اراکین کی ایسوسی ایشنز بنائی جائیں، سپیکر اور جج کا منصب اہم ہوتا ہے ، اس منصب پر بیٹھ کر بہت سے راز رکھنے پڑتے ہیں ۔
سپیکر قومی اسمبلی جمعرات کو پارلیمنٹ ہاؤس میں 18ویں سپیکرز کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کر رہے۔کانفرنس میں ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی سید غلام مصطفی شاہ،سیکرٹری جنرل قومی اسمبلی طاہر حسین، چاروں صوبائی اسمبلیوں، آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے سپیکرز، سیکرٹریز،پارلیمانی پارٹیوں کے نمائندے اور اراکین پارلیمنٹ شریک تھے۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے 18ویں سیپکرز کانفرنس کے شرکا کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ سپیکر کا کام سب سے مشکل ہوتا ہے،اپوزیشن کو زیادہ وقت دیں تو حکومت،حکومت کو وقت دیں تو اپوزیشن،پہلی قطار والے کو دیں تو پچھلے ناراض ہوجاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پروڈکشن آرڈز جیسے ایشوز پر کوشش ہوتی ہے کہ پہلے اگر کچھ غلط ہوا ہے تو اب نہیں ہونا چاہیے ،ہمیں ایک دوسرے کا تحفظ بھی کرنا ہے اور بغیر کسی دباؤ کے ایوان کو بھی چلانا ہے ۔انہوں نے کہاکہ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ، سینیٹ سیکرٹریٹ ، چاروں صوبوں،آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سیکرٹریٹ کا اس کانفرنس کے انعقاد میں کلیدی کردار ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ بات رولز میں شامل کررہے ہیں کہ سپیکر زکانفرنس سالانہ ہونی چاہیے۔آئندہ کانفرنس کی تاریخ اورمقام کا اعلان اختتامی نشست میں ہوجائے گا۔
انہوں نے کہا کہ2013میں قومی اسمبلی کو یونیورسٹی اور کالجز کے طلبا وطالبات کے لئے کھول دیا گیا ، ہمارے پاس انٹرن شپ کے لئے ساڑھے تین ہزار درخواستیں ہیں، سرکاری سکول سے پڑھے ہوئے اور مواقع سے محروم بچوں کو انٹرن شپ کا موقع دے رہے ہیں۔صوبائی اسمبلیاں بھی کالجز اور سکولز کے بچوں کو انٹرشپ کا موقع فراہم کریں۔انہوں نے کہا کہ ایوان میں وہپس کا کردار وزرا سے بڑھ کر ہے۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ تمام ممبران کو بولنے کا مساوی حق دیں،اس کے لئے مشاورت کے ساتھ چلتے ہیں۔
انہوں نے تجویز دی کہ سیکرٹریز ،پارٹی وہپس اور صوبائی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اراکین کی الگ الگ ایسوسی ایشنز بنائی جا ئیں جو یومیہ کی بنیاد پر رابطے میں رہیں اور ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کریں۔انہوں نے کہا کہ ملک میں جمہوری نظام کے خاتمے سے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی بیک لاگ ہوا جس کا بڑا حصہ چوہدری نثار علی خان اور سید خورشید شاہ نے اپنے ادوار میں ختم کیا ۔پی اے سی کی سب کمیٹی اور مانیٹرنگ کمیٹیاں بنا کر امور کو شفاف بنایا جاتا ہے۔ ہم اداروں کو اس بات کا پابند کرتے ہیں کہ ان کے اندر آڈٹ کمیٹیوں کا باقاعدگی سے اجلاس ہو،پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے ذریعے اربوں روپے کی وصولیاں کیں ہیں۔ سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ صوبائی اسمبلیاں اپنے ہاں قانون سازی کر کے پی اے سی کے کردار کو موثر بنائیں۔انہوں نے کہا کہ ایسے فیصلے کریں جن کے نتیجے میں ہم ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھ کر بہتری لاسکیں۔
انہوں نے کہا کہ معیشت،ماحولیاتی تبدیلیوں ، بے روزگاری جیسے ایشوز پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ایشوز پر بات ہونا ہوگی کسی کی ذات پر حملہ نہیں کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں پی آئی پی ایس سے مکمل تعاون ملا ہے۔ پی آئی پی ایس کے لئے نصاب بنایا جائے اور تمام صوبائی اسمبلیوں کے لوگوں کو وہاں پر کورسز کرائے جائیں ۔قومی اسمبلی کے سیکرٹری جنرل طاہر حسین نے سپیکرز کانفرنس کے شرکا کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ سیکرٹریز کانفرنس میں اس کانفرنس کو مستقل فورم فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے،تجویز تھی کہ اس حوالے سے ہر چھ ماہ بعد کانفرنس کا انعقاد کیا جائے اور سپیکر فورم قائم کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ تمام مسائل کا حل مذاکرات کے ذریعے ہوتا ہے ۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس فورم سے پاکستان اوراس کے عوام کو فائدہ ہوگا۔سینیٹر ثمینہ ممتاز زیدی نے ایوان بالا کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا کہ آج ہم اس لئے اکٹھے ہوئے ہیں کہ پارلیمان کو مضبوط اور قانون سازی کو موثر بنایا جائے۔ اس کانفرنس میں پارلیمان کی کارکردگی سمیت تمام ایشوز پر غور کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ دسمبر 22 سے خواتین کے حقوق کے حوالے سے تین روزہ سرگرمیوں کا انعقاد کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ قائمہ کمیٹیاں بالخصوص پبلک اکاؤنٹس کمیٹی شفافیت، نگرانی اور بہتری میں کردار ادا کررہی ہیں۔
انہوں نے کہاکہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کا مقصد عوام کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانا ہے۔آزاد کشمیر اسمبلی کے سپیکر چوہدری مجید اکبر نے کہا کہ 18ویں سپیکرز کانفرنس سے خطاب میرے لئے باعث اعزاز ہے ۔اس فورم سے ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کرنے، تجاویز کے تبادلے،پارلیمانی روایات،اسمبلی میں پیش ہونے والے امور کا حل ملے گا۔ انہوں نے کہاکہ مشترکہ مسائل کا مناسب حل مشاورت سے ہی ممکن ہے ۔ماضی میں پارلیمان نے ہیدرپیش مسائل کا کلیدی حل دیا کیا ہے۔ انہوں نے آئندہ سپیکر ز کانفرنس مظفر آباد میں منعقد کرنے کی دعوت دی۔
انہوں نے کشمیری عوام کی جرات اور حوصلے کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ کشمیریوں کی قربانیوں کے بعد عالمی برادری سمجھ رہی ہے کہ یہ پاکستان اور بھارت کا نہیں بلکہ کشمیریوں کے حق خودارادیت کا مسئلہ ہے،جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا ،خطے میں امن ممکن نہیں ہے ۔انہوں نے بھارتی حکومت کے 5 اگست 2019 کے اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایسے اوچھے ہتھکنڈوں سے تحریک آزادی کو نہیں دبایا جا سکتا۔انہوں نے کہاکہ بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر میں انسانی حقو کی سنگین خلاف ورزیاں ہورہی ہیں۔
فلسطین میں جو کچھ ہورہا ہے وہ عالمی برداری کے لئے لمحہ فکر ہونا چاہیے تھا لیکن عالمی برادری خاموش ہے۔بلوچستان اسمبلی کے سپیکر کیپٹن (ر)عبدالخالق اچکزئی نے کہا کہ ہم سب کو اس چیز پر نظر رکھنی چاہیے کہ ملک کے اندر کیا ہورہا ہے اور مسائل کا حل کیسے نکالا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ بلوچستان کے اندر کچھ لوگوں کی طرف سے مسائل بنائے جارہے ہیں لیکن وہاں کے سکیورٹی ادارے اس بات پر متفق ہیں بلوچستان کو آگے لیکر چلنا ہے اور اس حوالے سے مسلسل کوشش جاری ہے۔
بلوچستان کی سرحد ایک طرف افغانستان تو دوسری طرف ایران کے ساتھ ملتی ہے،ہمیں اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہترکرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب کو مل کر چلنا ہوگا ،یہ کامیابی کے لئے ناگزیر ہے ۔ گلگت بلتستان اسمبلی کے سپیکر نذیر احمد نے کہا کہ اس کانفرنس سے پاکستان میں پارلیمانی بالادستی کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی، اس کانفرنس سے وفاق پر وفاقی اکائیوں کااعتماد بڑھے گا۔ پارلیمانی پریکٹس، رولز، قانون سازی،پارلیمانی جمہوریت کی مضبوطی کے لئے بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔
انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کا سیاسی اور جمہوری سفر بالکل مختلف ہے، 2002 میں گلگت بلتستان میں اسمبلی قائم ہوئی ہے، ہمیں باقی ملک کو ملنے والے حقوق تاخیر سے ملنا شروع ہوئے ہیں۔ صوبوں کی آئینی فورمز پر نمائندگی ہے لیکن آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی نمائندگی نہیں ، اس پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں جمہوری نظام ہے، سب کو مل کر چلنا چاہیے۔اگر ہم اب بھی ترقی نہ کرسکے تو پھر کب ترقی کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ جمہوریت صرف الیکشن کا نام نہیں ، ہم نے اختلافات اور لڑائی جھگڑوں سے نکل کر جمہوری اقدار کو بچانا ہے۔
سپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی بابر خان سواتی نے کہا کہ وہ تمام جمہوری قوتیں قابل تحسین ہیں جنہوں نے مشکلات کے باوجود حوصلے نہیں چھوڑے۔ ایسی کوئی سیاسی پارٹی نہیں جس کی قیادت کو تشدد کا نشانہ نہ بنایا گیا ہوں یا جیلوں میں نہ گئی ہو اس کے باوجود ہم سب اکٹھے بیٹھے ہیں یہ جمہوریت کی مضبوطی کی واضح مثال ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی قوتیں اور سیاسی ورکرز ہمیشہ سے آئین اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں۔ اب ہمیں عمل درآمد کی طرف جانا ہوگا اور جو چھوٹے چھوٹے اختلافات ہیں انھیں بالائے طاق رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا۔
سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے کہا کہ اس کانفرنس کا مقصد آئینی طریقہ کار،قانون سازی کو بہتر کرنا ہے، ہماری کوشش ہونی جاہیے کہ اس کانفرنس کا انعقاد تسلسل کے ساتھ ہوتا رہے، 10سال کانفرنس کا نہ ہونا اچھا پیغام نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس فورم میں قانون سازی،رولز، وزارتوں اور محکموں کی کارکردگی بہتر بنانے، 18ویں ترمیم کے بعد وزارتوں اور محکمے صوبوں کے پاس جانے کے بعد پیچیدگیوں کے حل کے لئے ٹھوس پالیسزپر بات کرنا ہوگی۔
انہوں نے تجویز دی کہ مشترکہ مفادات کونسل کی طرح سپیکرز کانفرنس کو بھی مستقل حیثیت دی جائے۔سپیکر سندھ اسمبلی سید اویس قادر شاہ نے کہاکہ پارلیمنٹ صرف ایک عمارت نہیں ہے بلکہ اس کے اندر بیٹھے ہوئے قانون ساز اس کی اصل ہیں۔ قانون سازوں کو بہتر ٹیکنالوجیز سے روشناس کرایا جائے، سیمینارکا انعقاد کیا جائے، دیگر ممالک کے قانون سازوں کے ساتھ تعامل کو بڑھایا جائے، دوسرے ممالک میں قانون سازی کی نوعیت اور ان کے مستقبل کے منصوبوں کا جائزہ لیا جائے۔انہوں نے کہا کہ ہر چیز کا حل پارلیمنٹ کے اندر ہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے پارٹی کے چیئرمین نے مجھے سپیکر آفس سنبھالنے سے قبل تلقین کی کہ سب کو سننا ہے اور ہر نظریہ کی عزت کرنا ہے۔ سپیکر آفس غیر جانبدار اور ذمہ دار ہوتا ہے اور سب کو ساتھ لیکر چلنے کا پابند ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری ضرورت نوجوانوں کو بااختیار بنانا ہے، 2008میں جمہوریت بحال ہوئی اور آج 2024ہے، آج 2008میں پیدا ہونے والا بچہ 17سال کا ہوچکا ہے کیا ہم نے اس بچے کو درست سمت، مثبت سوچ اور آگے بڑھنے کی مواقع فراہم کئے ہیں۔انہوں نے کہاکہ مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن نے ہمارے نوجوانوں کومتاثر کیا ہے، یہ وقت ہے کہ تمام قانون ساز ادارے اس چیلنج سے نبردآزما ہونے کا حل پیش کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہم سندھ اسمبلی کو پیپر لس کرنے، مصنوعی ذہانت کے ذریعے قانون سازی کو موثر بنانے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔