راجیو گاندھی کے قاتلوں کی قبل از وقت رہائی کے حکم پر متاثرہ خاندانوں ‘ سیاست دانوں اور دانشور طبقہ کا اظہار مذمت

130

اسلام آباد۔12نومبر (اے پی پی):بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے گزشتہ روز سابق بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کے قتل میں سزا یافتہ 6 مجرموں کی قبل از وقت رہائی کے حکم پر متاثرہ خاندانوں، سیاست دانوں اور دانشور طبقہ نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے حیران کن اور بی جے پی کے زیر اثر بھارتی عدلیہ کی ساکھ پر ایک اور دھبہ قرار دیا ہے۔1991 میں بھارتی ریاست تامل ناڈو میں ایک خاتون خودکش بمبار نے راجیو گاندھی کو 46 سال کی عمر میں قتل کر دیا تھا۔یہ قتل سری لنکا کے علیحدگی پسند گروپ لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلم ( ایل ٹی ٹی ای ) نے کیا تھا۔ 1991 کے خودکش بم دھماکے میں کل 16 افراد مارے گئے تھے جن میں راجیو گاندھی، 9 پولیس اہلکار اور 6 دیگر افراد شامل تھے۔

عدالت نے قاتلوں کو جیل میں ان کے اطمینان بخش طرز عمل کی بنیاد پر رہا کیا اور یہ کہ وہ تین دہائیوں سے زیادہ جیل کاٹ چکے ہیں۔تاہم اس فیصلے کی بھارت میں بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی اور اسے ملک بھر میں سیاسی مخالفین اور نسلی اقلیتوں کو دبا نے اور ہندوتوا نظریہ کو آگے بڑھانے کے لیے بی جے پی حکومت کا ایک اور حربہ قرار دیا گیا ہے ۔ کچھ ناقدین نے اسے قومی بے عزتی، قابل مذمت اور خطرناک نظیرقرار دیا جبکہ دیگر افراد نے رائے دی کہ یہ صرف بنانا عدلیہ میں ہو سکتا ہے۔

بابری مسجد ہو، سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ ہو، بلقیس بانو ریپ ہو یا حجاب پر پابندی کا معاملہ، یہ پہلا موقع نہیں ہے جب بھارتی عدلیہ نے آر ایس ایس کے ایجنڈے کی پاسداری کرتے ہوئے اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والے لاکھوں لوگوں کی جانوں کو خطرے میں ڈال کر انتہاپسند عناصر کو آزاد چھوڑ دیا ہے۔انڈین نیشنل کانگریس کے جنرل سکریٹری انچارج کمیونیکیشن جے رام رمیش نے پارٹی کی جانب سے فیصلے پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے مکمل طور پر ناقابل قبول اور غلط قرار دیا۔

جے رام رمیش نے کہا کہ کانگریس پارٹی واضح طور پر اس فیصلے کو مسترد کرتی ہے اور اسے پوری طرح سے ناقابل قبول تصور کرتی ہے۔ یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ سپریم کورٹ نے اس معاملے پر بھارتی آئین کی روح کے مطابق کام نہیں کیا۔انڈین نیشنل کانگریس کی چیئرپرسن سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز سپریا شرینے نے کہا کہ راجیو گاندھی کا قتل بھارت کی روح پر حملہ تھاجسے کبھی معاف نہیں کیا جا سکتا۔

ایک بھارتی آن لائن اخبار دی پرنٹ کے بانی شیکر گپتا نے کہا کہ راجیو گاندھی کا قتل ایک قومی سانحہ تھا، ان کے قاتلوں کی رہائی قومی بے عزتی ہے۔ یہ انتہا پسندوں کے لئے نرم گوشہ رکھنے والی ریاست کی بدترین مثال ہے۔معروف بھارتی صحافی برکھا دت نے راجیو گاندھی کے قاتلوں کی رہائی کو قابل مذمت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر بھارتی وزیر اعظم کا قتل زندگی کے لیے زندگی کا مطلب کرنے کے لیے کافی وجہ نہیں ہے تو ہم ممکنہ طور پر دیگر عصمت دری اور قتل کے مقدمات میں ملوث مجرموں کی رہائی کے بارے میں شکایت نہیں کر سکتے ۔

بھارتی نیوز اینکر راجدیپ سردیسائی کا نے کہا ہے کہ عمر قید کی سزا پانے والے راجیو گاندھی کے قاتلوں کی رہائی ایک خطرناک مثال قائم کرتی ہے۔وہ ایک گھناؤنے جرم کے مجرم ہیں۔ بھارتی ارب پتی کاروباری اہم شخصیت اور زوہو کارپوریشن کے بانی اور سی ای او سریدھر ویمبو نے کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے سزا یافتہ مجرموں کو قبل از وقت رہا کرنا انتہائی قابل افسوس ہے ، جن کا راجیو گاندھی اور بہت سے دوسرے لوگوں کے وحشیانہ قتل میں جرم کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔انہوں نے ٹویٹر پر اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ موت کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کرنا رحمت ہے۔ لیکن ان جیسے مجرموں کی رہائی ایک لمحہ فکریہ ہے۔

انسانی حقوق کے مسائل پر آواز اٹھانے والی ممتاز بھارتی ایڈیٹر آرتی ٹیکو نے عدالتی فیصلے کو شرمناک قرار دیا کیونکہ صرف نرم ریاست کی بنانا عدلیہ میں ہی بھارت کے سابق وزیر اعظم کے قاتلوں کو جیل سے آزادی مل سکتی ہے۔ گاندھی کے قاتلوں کی رہائی نے زندہ بچ جانے والوں اور متاثرہ خاندانوں کو بھی دکھ پہنچایا۔ عباس نامی شخص جو دھماکے میں اپنی والدہ کو کھو چکے ہیں نے بھارتی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیسا انصاف ہے؟ رہائی پانے والے مجرموں نے ایک منصوبہ بنا کر ایک وزیر اعظم اور بے گناہ تاملوں کو قتل کیا۔ یہ ناقابل قبول ہے۔

زندہ بچ جانے والی ایک ریٹائرڈ خاتون پولیس افسر انوسویا ڈیزی ارنسٹ جو دھماکے کے وقت ہجوم کو کنٹرول کر رہی تھی نے پوچھا کہ ہلاک اور زخمی بچ جانے والوں کے لیے انصاف کا کیا ہوگا؟۔بھارتی خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی سے بات کرتے ہوئے ارنسٹ نے کہا کہ میں ابھی بھی پیلٹ انجری کا علاج کروا رہی ہوں۔ یہ ہے زخمیوں کی حالت زار۔ انصاف کہاں ہے؟،بھارتی عدلیہ کی تاریخ حقائق کے ساتھ ساتھ زمینی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے متنازع فیصلوں سے بھری پڑی ہے۔2020 میں، ایک بھارتی عدالت نے آڈیو اور ویڈیو شواہد کے باوجود بابری مسجد کے انہدام کے مقدمے میں ہندو قوم پرست رہنماؤں کو بری کر دیا جس سے شروع ہونے والے ملک گیر فسادات میں 3000 سے زائد افراد کو ہلاک ہو گئے تھے ۔

ایک اور فیصلے میں، بھارتی سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ دلت یا قبائلی برادریوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہر قسم کی توہین کو جرم نہیں سمجھا جائے گا۔2020 میں، بھارتی سپریم کورٹ نے 2002 میں گودھرا ٹرین جلانے کے واقعے کے بعد پیش آنے والے سردار پورہ قتل عام کے تمام 14 مجرموں کو ضمانت دے دی تھی۔

ماضی قریب میں، کرناٹک ہائی کورٹ نے مذہبی رسومات کی آزادی کے اصول کو برقرار رکھنے میں ناکامی پر تعلیمی اداروں میں مسلم لڑکیوں کے ‘حجاب’ پہننے پر پابندی لگا دی تھی۔بھارت کی ایک خصوصی عدالت نے 2007 میں سمجھوتہ ایکسپریس ٹرین میں بم دھماکے کے الزام میں چار افراد کو بری کر دیا تھا جس میں 68 افراد ہلاک ہوئے تھے۔اس سال اگست میں، گجرات حکومت نے بلقیس بانو گینگ ریپ کیس میں عمر قید کی سزا پانے والے 11 افراد کی قبل از وقت رہائی کا حکم دیا۔