سپریم کورٹ نے سانحہ آرمی پبلک سکول از خود نوٹس کیس کی سماعت چار ہفتوں کیلئے ملتوی کر دی

159
سانحہ آرمی پبلک سکول از خود نوٹس کیس ، وزیر اعظم عمران خان سپریم کورٹ میں پیش ، سماعت چار ہفتوں کیلئے ملتوی

اسلام آباد۔10نومبر (اے پی پی):سپریم کورٹ نے سانحہ آرمی پبلک سکول از خود نوٹس کیس کی سماعت چار ہفتوں کیلئے ملتوی کرتےہوئے وفاقی حکومت سے آئندہ سماعت تک معاملہ پر رپورٹ طلب کر لی ۔سپریم کورٹ نے گزشتہ حکمنامہ پر عملدرآمد کی ہدایت کرتے ہوئے اپنے حکم میں کہا کہ حکومت سانحہ اے پی ایس پشاور میں ملوث افراد کیخلاف اقدام اٹھائے، متاثرہ والدین کا موقف لے کر کارروائی کی جائے جبکہ وزیر اعظم عمران خان نے عدالت عظمیٰ کے روبرو پیش ہو کرعدالت کو انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ قانون کی بالادستی پر یقین رکھتا ہوں،کوئی قانون سے بالاتر نہیں ہے،عدالت حکم دے، ایکشن لوں گا۔ بدھ کو چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ کیا ذمہ داران کیخلاف مقدمہ درج ہوا؟۔

جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سابق آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف انکوائری رپورٹ میں کوئی فائنڈنگ نہیں ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ اربوں روپے انٹیلی جنس پر خرچ ہوتے، عوام کی حفاظت کی بات آتی ہے تو انٹیلیجنس کہاں چلی جاتی ہیں، عوام اور بچوں کو سکولوں میں مرنے کیلئے نہیں چھوڑ سکتے ،چوکیدار اور سپاہیوں کیخلاف کارروائی کر دی گئی، اصل میں تو کارروائی اوپر سے شروع ہونی چاہیے تھی، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اداروں کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ قبائلی علاقوں میں آپریشن کا رد عمل آئے گا، سب سے نازک اور آسان ہدف سکول کے بچے تھے، یہ ممکن نہیں کہ دہشت گردوں کو اندر سے سپورٹ نہ ملی ہو، متاثرہ والدین کو تسلی دینا ضروری ہے،والدین چاہتے ہیں اس وقت کے اعلیٰ حکام کے خلاف کارروائی ہو۔

دوران سماعت عدالت کی جانب سے طلب کرنے پر وزیراعظم عمران خان عدالت کے رو برو پیش ہوئے ،وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین ،وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات فرخ حبیب ،وزیر داخلہ شیخ رشید،وفاقی وزیر علی زیدی ،معاون خصوصی علی نواز اعوان ،سینیٹر عون عباس بپی بھی ان کے ہمراہ تھے ۔

وزیراعظم عمران خان نے روسٹرم پر آ کر عدالت کو آگاہ کیا کہ جب سانحہ اے پی ایس پشاور ہوا تو صوبے میں ہماری حکومت تھی،واقعہ کے دن ہی پشاور گیا تھا،ہسپتال جا کر زخمیوں سے بھی ملا، واقعہ کے وقت سکول کے بچوں کے والدین سکتے میں تھے،صوبائی حکومت جو بھی مداوا کرسکتی تھی کیا، تمام سیاسی جماعتوں نے اختلاف کو ایک طرف رکھ کر سانحہ اے پی ایس کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنایا، ہمارے 80 ہزار لوگ شہید ہوئے۔

دہشتگردی کیخلاف ہم جنگ اس لیے جیتے کہ پوری قوم پاک فوج کیساتھ کھڑی رہی،ہمارا اسامہ بن لادن اور افغانستان کی صورتحال سے لینا دینا نہیں تھا،میں کہتا رہا کہ امریکا کی جنگ میں شامل نہ ہوں ،امریکی دبائو پر مشرف بیرونی جنگ میں شامل ہوئے،افغانستان میں طالبان حکومت آنے کے بعد داعش،ٹی ٹی پی اور بلوچ علیحدگی پسند پاکستان آگئے ،طالبان حکومت کے بعد اڑھائی لاکھ لوگ پاکستان کے راستے باہر گئے، ان لوگوں کی آڑ میں دہشت گرد پاکستان میں روپوش ہوئے،ہمارا نائن الیون سے کوئی تعلق نہیں تھا،متاثرہ والدین نے جو نام دیے ان میں سے کوئی مقدس گائے نہیں، قانون کی بالادستی پر یقین رکھتا ہوں،کوئی قانون سے بالاتر ہے نہ ہی مقدس گائے،اخلاقی ذمہ داری پر کیسے مقدمہ درج کریں۔

عدالت کمیشن بنائے،عدالت حکم کرے میں ایکشن لوں گا۔ اس دوران اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سانحہ اے پی ایس پر لوگوں کو پھانسیاں بھی ہوئیں۔ اس دوران چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ یہ نہیں کہتے کہ ایف آئی آر درج کریں، لوگوں کو پتہ تو چلے کہ ذمہ دار کون ہے، شہدا کے والدین کو سننے والا کوئی نہیں ہے،کچھ نہ کچھ کارروائی تو ہونی ہی چاہیے۔

اس موقع پر جسٹس اعجازلاحسن نے ریمارکس دیے کہ غیر جانبداری سے والدین کے نامزد افراد سے تحقیقات تو ہوں،آپ کو پیشگی منصوبہ بندی کرنا ہو گی ،عدالتی حکم میں نام واضح ہیں، اعلی سطحی کمیٹی تحقیقات کر سکتی ہے ، عدالت کو یقین دہانی کرائیں آپ ایکشن لیں گے، واضح اقدامات کر کے عدالت کو آگاہ کریں،تعین کریں کہ کس کی کیا ذمہ داری تھی،حکومت کو دیکھنا ہو گا کہ سانحہ کے پیچھے کیا محرکات تھے،سمجھتے ہیں سانحہ اس وقت کی حکومت کی ناکامی تھی۔

اس دوران وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ افغانستان کا مسئلہ حل ہونے تک مسئلہ رہے گا ،وزیر اعظم عمران خان نے عدالت کو انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ قانون کی بالادستی پر یقین رکھتا ہوں،کوئی قانون سے بالاتر ہے نہ ہی مقدس گائے ،عدالت حکم کرے میں ایکشن لوں گا، ہم نے نیشنل انٹیلیجنس کوآرڈینشن کمیٹی بنائی جو معاملہ کو دیکھ رہی ہے۔

چیف جسٹس گلزار احمد نےوزیراعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کسی کے خلاف کچھ ملتا ہے تو کارروائی کریں ، سات سال سے کسی بڑے کیخلاف کارروائی نہیں ہوئی، اب آپ بااختیار وزیر اعظم ہیں۔ دوران سماعت جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیئے کہ مظلوم کا ساتھ تو یہی ہے کہ ظالم کے خلاف کارروائی ہو۔

عدالت عظمی نے وفاقی حکومت سے آئندہ سماعت تک معاملہ پر رپورٹ طلب کر تے ہوئے کیس کی سماعت چار ہفتوں کیلئے ملتوی کر دی ۔ سپریم کورٹ نے گزشتہ حکمنامہ پر عملدرآمد کی ہدایت کرتے ہوئے اپنے حکم میں قرار دیا ہے کہ حکومت سانحہ اے پی ایس پشاور میں ملوث افراد کیخلاف مثبت اقدام اٹھائے،حکومت والدین کا موقف لے کر کارروائی کرے۔ وزیر اعظم عمران خان نے سپریم کورٹ کو انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی یقین دہانی کرا دی۔