سندھ میں سازش اور گٹھ جوڑ کے ذریعے گنے کی کرشنگ شروع نہیں کی جا رہی، شوگر ملز کے بوائلر چلا کر بند کر دیئے گئے ،وفاقی وزیر توانائی حماد اظہر کی پریس کانفرنس

135

اسلام آباد۔8نومبر (اے پی پی):وفاقی وزیر توانائی حماد اظہر نے کہا ہے کہ سندھ میں سازش اور گٹھ جوڑ کے ذریعے گنے کی کرشنگ شروع نہیں کی جا رہی، شوگر ملز کے بوائلر چلا کر بند کر دیئے گئے ہیں، سندھ حکومت گٹھ جوڑ میں شامل ہو کر چینی مہنگی کرنے کی بجائے اپنی ذمہ داری پوری کرے، وفاقی حکومت نے گنے کی کرشنگ میں تاخیر ختم کرنے کیلئے قانون لاگو کیا ہے، سندھ حکومت یہ قانون بھی لاگو نہیں کر رہی، ایک لاکھ ٹن درآمدی چینی مارکیٹ میں لائی جا رہی ہے، قیمت 90 روپے فی کلو ہو گی، اب شوگر ملز کو کوئی برآمدی سبسڈی نہیں دی جائے گی، حکومتی اقدامات سے آئندہ دو سے تین ہفتوں میں چینی کی قیمتیں تیزی سے نیچے آئیں گی، 15 نومبر تک جو شوگر مل نہیں چلے گی اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہو گی۔

پیر کو یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حماد اظہر نے کہا کہ رواں سال ایک مرتبہ پھر سندھ میں گنے کی کرشنگ میں تاخیر کی جا رہی ہے، سندھ میں شوگر ملیں 15 اکتوبر تک چل جاتی ہیں لیکن ابھی تک وہ شوگر ملیں نہیں چلیں، ہمارے پاس سندھ کی ان شوگر ملز کی تفصیلات موجود ہیں جنہوں نے بوائلر چلا کر پھر بند کر دیئے، بوائلر کو سازش کے تحت بند کرایا گیا، سندھ کی شوگر ملیں چل رہی ہوں تو چینی کی قیمت نہیں بڑھے گی، سیاسی سازش میں عوام پس رہے ہیں، سندھ میں شوگر ملوں کا نہ چلنا سندھ حکومت اور شوگر ملز ایسوسی ایشن سندھ زون کا گٹھ جوڑ اور وفاقی حکومت کے خلاف سیاسی سازش ہے، سندھ حکومت سازش بے شک کرے لیکن عوام کو اس سے تکلیف نہیں پہنچی چاہئے، ہمارا سوال ہے کہ 15 اکتوبر تک سندھ میں جو شوگر ملیں چل جاتی تھیں وہ اب تک کیوں نہیں چلیں اور بوائلر چلا کر کیوں بند کر دیئے گئے۔

انہوں نے کہا کہ گذشتہ سال ہم نے قانون بنایا تھا کہ جو شوگر ملیں وقت پر نہیں چلیں گی ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی جائیں گی اور انہیں 50 لاکھ روپے یومیہ جرمانہ بھی ہو گا، باقی صوبوں نے یہ قانون لاگو کر دیا ہے لیکن سندھ حکومت نے یہ قانون ابھی تک لاگو نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ چینی کا تو ذخیرہ کیا جا سکتا ہے، گنے کا ذخیرہ نہیں ہو سکتا اور گنے کی خریدار صرف شوگر ملیں ہیں، ہر سال شوگر ملیں اپنے مطالبات منوانے کیلئے کرشنگ میں تاخیر کرتی تھیں اور حکومتوں پر دبائو ڈال کر ایکسپورٹ پر اربوں روپے کی سبسڈی لیتی تھیں اور حکومتوں کو بلیک میل کیا جاتا تھا، وفاقی حکومت کے اقدامات کی وجہ سے پچھلے سال پہلی مرتبہ 15 نومبر تک گنے کی کرشنگ کا آغاز ہوا اور کسانوں کو ان کی فصل کا جائز معاوضہ دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت نے یہ قانون ابھی تک منظور نہیں کیا اور جس کا ہمیں خدشہ تھا وہی ہو رہا ہے، سندھ حکومت بھی باقی صوبوں کی طرح وہ قانون منظور کرے اور شوگر ملوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے چینی مہنگی نہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت گندم بھی بروقت جاری نہیں کرتی، اسی وجہ سے سندھ میں آٹے کی قیمت زیادہ ہوتی ہے اور پنجاب اور دیگر صوبوں میں کم ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت نے اعلان کیا تھا کہ جنوبی پنجاب میں شوگر ملیں 15 نومبر اور وسطی اور شمالی پنجاب شوگر ملیں 20 نومبر سے کرشنگ شروع کر دیں گی، اگر مقررہ وقت تک شوگر ملیں نہ چلیں تو ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ وزیر توانائی نے کہا کہ ملک میں چینی کی مصنوعی قلت پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، رواں سال گنے کی بھرپور پیداوار ہوئی ہے پھر کسان سے گنا نہ لینے کا کیا جواز بنتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گذشتہ سال چینی کی قیمت 100 سے 110 روپے تک بھی گئی تھی لیکن جب درآمدی چینی مارکیٹ میں آئی تو قیمتیں کم ہونا شروع ہو گئیں اور گذشتہ نومبر میں چینی کی قیمت 70 روپے فی کلو تک آ گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ رواں سال ایک لاکھ ٹن درآمدی چینی مارکیٹ میں لائی جا رہی ہے جو 90 روپے فی کلو میں دستیاب ہو گی، اس کے علاوہ 30 ہزار ٹن کا ایک اور بحری جہاز کراچی کی بندرگاہ پر پہنچ رہا ہے، وہ چینی بھی مارکیٹ میں لائی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت کو ہدایت کی گئی ہے کہ درآمدی چینی مختلف سٹورز اور ٹرکوں کے ذریعے صارفین کو فراہم کرے، یوٹیلٹی سٹورز میں بھی چینی وافر میں مقدار میں موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ کارٹل کے خلاف جنگ جاری رہے گی، ماضی میں ہمیشہ حکم امتناعی لے لیا جاتا تھا، ہم نے وہ حکم امتناعی ختم کرایا ہے جس کے بعد مسابقتی کمیشن جرمانے عائد اور قانونی کارروائی بھی کر سکتا ہے، یہ جنگ ایک سال یا ایک مہینے میں نہیں جیتی جا سکتی، جتنے بڑے سیاسی گھرانے ہیں ان سب کی شوگر ملیں ہیں، اس کاروبار میں کوئی کشش ہے تبھی باقی کاروبار میں ناکام ہونے والے خاندان اس کاروبار میں ارب پتی بن جاتے ہیں، ہر سال گٹھ جوڑ کرکے چینی قیمت مقرر کی جاتی تھی، کرشنگ میں تاخیر کی جاتی تھی، چینی کی درآمد رکوائی جاتی تھی اور ڈیوٹیاں بڑھوائی جاتی تھیں، ہم نے چینی کی درآمد پر ڈیوٹی ختم کی، خام چینی کی درآمد کھولی۔

انہوں نے کہا کہ چینی کی کرشنگ میں تاخیر پر کارروائی کا قانون پہلے بھی موجود تھا لیکن کسی نے اس پر نظرثانی نہیں کی اور صرف چند ہزار روپے کا چالان ہی کیا جاتا تھا، ہم نے اب یہ قانون لاگو کیا ہے، حکومت کے اقدامات سے اربوں روپے اب کسان مل رہے ہیں، کسان کو اس کی فصل کا حقیقی معاوضہ مل رہا ہے جو پہلے نہیں ملتا تھا، اب کوئی برآمدی سبسڈی شوگر ملوں کو نہیں دی جائے گی، باقی صنعتوں کی طرح اس صنعت کو بھی طلب و رسد کی بنیاد پر چلنا چاہئے، حکومت کی پہلی ترجیحی کسان ہیں جن کا روزگار شوگر ملوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے، شوگر ملز مالکان کے ساتھ بھی زیادتی نہیں ہو گی لیکن انہیں بھی کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرنے دیں گے۔

حماد اظہر نے کہا کہ حکومتی اقدامات سے اگلے دو سے تین ہفتوں میں چینی کی قیمتیں تیزی سے کم ہو جائیں گی۔ ایک سوال کے جواب میں حماد اظہر نے کہا کہ سٹہ بازی کے ذریعے چینی کی قیمت بڑھانے والوں کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے، گذشتہ روز بھی کئی سٹہ باز پکڑے گئے ہیں جس کے بعد مارکیٹ میں صورتحال میں بہتری آئی ہے، من مانی سے شوگر ملیں چلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، شوگر انڈسٹری کے شعبہ میں موجودہ حکومت کے دور میں ٹیکس ریونیو میں اضافہ ہوا ہے، ٹیکس قوانین میں چھوٹ ختم کی گئی ہے اور اب شوگر ملوں نے خرید و فروخت ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کے تحت چلے گا۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ملک میں چینی کی کھپت ساڑھے 4 لاکھ ٹن ہے اس میں سے ڈیڑھ لاکھ ٹن چینی ماہانہ صارفین استعمال کرتے ہیں، اس وقت ملک میں ایک لاکھ ٹن درآمدی چینی موجود ہے، 30 ہزار ٹن مزید آ رہی ہے جبکہ یوٹیلٹی سٹورز کے پاس 25 ہزار ٹن چینی موجود ہے، پہلی مرتبہ شوگر ملز مالکان اور سٹے بازوں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے، کسانوں کو ماضی میں ان کی فصل کا کم معاوضہ دیا جاتا تھا، ہم نے کسانوں کو ماضی کے بقایا جات بھی دلائے، انڈسٹری سے ردعمل آ رہا ہے، اس ردعمل کے خلاف حکومت اقدام اٹھائے گی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت نے مختلف مقامات سے ذخیرہ کی گئی ہزاروں ٹن چینی برآمد کی ہے اور یہ چینی سرگودہا میں ٹرک کے ذریعے 90 روپے فی کلو کے حساب سے فروخت کی گئی ہے۔