اسلام آباد۔25جولائی (اے پی پی):سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے خلاف پرویز الٰہی کی درخواست کی سماعت کے موقع پر فریقین کےفل کورٹ تشکیل دینے کے درخواستیں مسترد قرار دیتے ہوئے معاملہ کی سماعت (آج )منگل تک کے لئے ملتوی کر دی ۔
پیر کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔اس موقع پر پرویز الٰہی کے وکیل علی ظفر، ڈپٹی اسپیکر کے وکیل عرفان قادر،پی ٹی آئی کے وکیل امتیاز صدیقی، ق لیگ کے وکیل صلاح الدین،حمزہ شہباز کے وکیل منصور اعوان ، سابق صدر سپریم کورٹ بار لطیف آفریدی،پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک اور جے یو آئی کے وکیل کامران مرتضیٰ عدالت میں پیش ہوئے۔سماعت کے آغاز میں سابق صدر سپریم کورٹ بار لطیف آفریدی نے دلائل دئیے ۔
انہوں نے آئینی بحران سے بچنے کے لیے آرٹیکل 63 اے کی تشریح پر نظرثانی سمیت دستیاب ججز پر مشتمل فل کورٹ تشکیل دیکر تمام مقدمات کو یکجا کرکے سننے کی بھی استدعا کی۔ڈپٹی اسپیکر کے وکیل عرفان قادر نے اس موقع پر عدالت سے فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ میرے ذہن میں کافی ابہام ہیں۔
چیف جسٹس نے عرفان قادر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ فُل کورٹ کا مطالبہ کرکے ہم پر عدم اعتماد کررہے ہیں جس پر عرفان قادر نے موقف اپنایا کہ یہ مطالبہ میری نہیں پوری قوم کا ہے؟چیف جسٹس نے کہا کہ میرے مطابق ہمارے فیصلے میں کوئی ابہام نہیں ہے۔
حمزہ شہباز کے وکیل منصور اعوان نے اس موقع پر عدالت کے روبرو موقف اپنایا کہ میں نے اپنا جواب عدالت میں جمع کروا دیا ہے، جسٹس اعجازلاحسن نے اس موقع پر ان سے سوال کیا کہ فیصلے کےکونسے حصے پرڈپٹی اسپیکرنےانحصارکیا اس کابتائیں،کیا ڈیکلریشن اور پارلیمانی پارٹی کو ہدایت ایک ہی شخص دے سکتا ہے؟جس پر ڈپٹی اسپیکر کے وکیل نے بتایا کہ آرٹیکل 63اے 14ویں ترمیم سےآئین میں شامل کیا گیا،18ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 63 اے میں مزید وضاحت کی گئی،ڈپٹی اسپیکرنےفیصلے کےپیرا گراف تین پر انحصارکیا،جسٹس منیب اختر نے اس موقع پر حمزہ شہباز کے وکیل سے پوچھا کہ آپ کے پاس سیاسی پارٹی کے سربراہ کے بارے میں کیاقانونی دلائل ہیں،آرٹیکل 63 اے کے اصل ورژن میں دو تین زاویے ہیں،پارٹی پالیسی میں ووٹ کاسٹ کرنے سے متعلق دو الگ اصول ہیں،18 ترمیم سے پہلے ارٹیکل 63 اے پارٹی سربراہ کی ہدایات کی بات کرتا تھا،18 ترمیم کے بعد پارٹی لیڈر کو پارلیمانی پارٹی سے بدل دیا گیا،پہلے پارلیمانی پارٹی اور پارٹی سربراہ کے اختیارات میں ابہام تھا،ترمیم کے بعد آرٹیکل 63 اے میں پارلیمانی پارٹی کو ہدایت کا اختیار ہے،
منصور اعوان نے موقف اپنایا کہ آرٹیکل 63 اے میں پارٹی سربراہ کا ذکر موجود ہے،جسٹس شیخ عظمت سعید کے فیصلے کے مطابق پارٹی سربراہ ہی سارے فیصلہ کرتا ہے، چار سیاسی جماعتوں کے سربراہ پارلیمانی پارٹی کا حصہ نہیں ہیں،جے یو آئی ف پارٹی سربراہ کے نام پر ہے،مولانا فضل الرحمان پارلیمانی پارٹی کا حصہ نہیں ہیں،عوام میں جواب دہ پارٹی سربراہ ہوتا ہے پارلیمانی پارٹی نہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے اس موقع پر ریمارکس دیئے کہ پارٹی سربراہ کا کردار بہت اہم ہے،منحرف رکن کیخلاف پارٹی سربراہ ہی ریفرنس بھیجنے کا فیصلہ کرتا ہے،ووٹ کس کو ڈالنا ہے ہدایت پارلیمانی پارٹی دے گی اور ریفرنس سربراہ بھیجے گا،سیاسی جماعت اصل میں وہی ہوتی ہے جو پارلیمانی پارٹی ہو،عوام جسے منتخب کر کے اسمبلی میں بھیجتی ہے ان ارکان کے پاس ہی مینڈیٹ ہوتا ہے۔
منصور اعوان نے موقف اپنایا کہ الیکشن کمیشن نے قرار دیا کہ منحرف ارکان نے پارٹی پالیسی کیخلاف ووٹ دیا۔جسٹس اعجاز الااحسن نے اس موقع پر پوچھا کہ کیا آپ پارٹی پالیسی کا مطلب پارلیمانی پارٹی کی ہدایات لے رہے ہیں۔ جس پر منصور اعوان بولے کہ آپ بالکل درست کہہ رہے ہیں،پارٹی پالیسی ہی پارلیمانی پارٹی کی ہدایات ہوتی ہے،جسٹس منیب اختر نے حمزہ شہباز کے وکیل سے پوچھا کیا آپ کے پاس فل کورٹ بنانے کی صرف یہی دلیل ہے؟ جس پر حمزہ شہباز کے وکیل نے موقف اپنایا کہ میری گزارشات یہی ہے کہ فل کورٹ تمام مقدمات کو یکجا کرکے سماعت کرے۔
پرویز الہی کے وکیل علی ظفر نے اپنے دلائل میں موقف اپنایا کہ ڈپٹی سپیکر نے نتائج سنانے کے بعد چوہدری شجاعت کا خط لہرایا،خط لہرانے کے بعد عدالتی فیصلے کا حوالہ دیکر ق لیگ کے ووٹ مسترد کیے گئے،فل کورٹ بنانے کا اختیار چیف جسٹس کا ہے،15 مقدمات میں چیف جسٹس نے فل کورٹ بنانے سے انکار کیا ہے،فل کورٹ سے عدالت کو دوسرا سارا کام روکنا پڑتا ہے،عدالت پر مکمل اعتماد ہونا چاہیے،فل کورٹ تشکیل دینا چیف جسٹس کی صوابدید ہے۔
پی ٹی آئی کے وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل دیے کہ ڈپٹی سپیکر رولنگ میں لکھا گیا کہ مجھے ابھی چوہدری شجاعت کا خط ملا ہے،ووٹنگ کے بعد دروازے بند ہوجاتے ہیں کوئی آ یا جا نہیں سکتا، ڈپٹی سپیکر نے کہا میرا فیصلہ چیلنج کر دیں۔چوہدری شجاعت کے وکیل صلاح الدین نے ایک موقع پر دلائل دینا چاہے تو عدالت نے انہیں روکتے ہوئے قرار دیا کہ عدالت نے ابھی آپ کو فریق نہیں بنایا۔صلاح الدین نے اس موقع پر کہا کہ مائی لارڈپارٹی بھی میری ہے خط بھی میرا ہے، چیف جسٹس نے اس موقع پر اُنہیں ہدایت کی کے آپ فل کورٹ پر دلائل دے سکتے ہیں۔ق لیگ کے وکیل نے موقف اپنایا کہ میں چاہتا ہوں کہ معاملہ پر فل کورٹ تشکیل دی جائے۔
پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے استدعا کی کہ عدالت جمعرات تک کیس ملتوی کرے،جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ بات دو دن کی نہیں ہے،عدالت نے تعین کرنا ہے وزیراعلی کا انتخاب درست تھا یا نہیں،سوال بس اتنا ہے کہ اگر ڈپٹی اسپیکر نے ہمارے فیصلے کو غلط سمجھا ہے تو ہم اس کو درست کریں،کیسز کا پنڈورا باکس نہیں کھول سکتے،عدالت کے سامنے ایک قانونی سوال ہے۔
ق لیگ کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے دلائل دیئے کہ اصل فیصلہ پارٹی سربراہ کا ہی ہوتا ہے ، ہر سیاسی جماعت کا ایک منشور ہوتا ہے،ووٹ کا فیصلہ پارٹی سربراہ اور پارٹی کا ہوتا ہے، فل کورٹ کی بصیرت سے فائدہ اٹھانا چاہئے،عدالت 63 اے سے متعلق معاملات پر فل کورٹ بنا دےہم معاملہ کو طول نہیں دینا چاہتے،ہم کیس کو بلکل طویل نہیں کرنا چاہتے،جو ججز دستیاب ہیں وہ بھی بیٹھ کر فیصلہ کر سکتے ہیں،وڈیو لنک کے ذریعے بھی ججز شریک ہو سکتے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمارے علاوہ صرف دو ججز ہی یہاں دستیاب ہیں۔ بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے معاملہ پر فل کورٹ بینچ تشکیل دینے کی درخواستیں مسترد قرار دیتے ہوئے معاملہ ایک دن کے لئے ملتوی کر دیا ہے ۔