سپریم کورٹ کا فیصلہ اکثریتی نہیں بلکہ اقلیتی ہے ، وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمن کا قومی اسمبلی میں اظہار خیال

71

اسلام آباد۔4اپریل (اے پی پی):وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمن نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اکثریتی نہیں بلکہ اقلیتی ہے اور اس میں آئین کے تحت 90 دن کے اندر انتخابات کی تاریخ نہیں دی گئی، سپریم کورٹ لارجر بنچ بنا کر اپنی اس غلطی کا ازالہ کرے، ہم الیکشن سے نہیں بھاگ رہے۔ منگل کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر سینیٹر شیری رحمن نے کہا کہ پاکستان اور دنیا بھر کی جمہوریت کیلئے 4 اپریل ایک بھاری دن ہے، شہید ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت ہمیں یہ سبق دے رہی ہے کہ جب عدالتی قتل ہوتا ہے تو قومیں جمہور اور ملک ان زخموں کو بھرنے میں کامیاب نہیں ہوتا، 4 اپریل کے کالے بادل آج بھی چھائے ہوئے ہیں، وہی نظریہ ضرورت کی بات آج بھی کی گئی ہے، پاکستان کا پہلے دن سے یہ المیہ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج پارلیمان کے حقوق پر شب خون مارا گیا ہے، یہ پھر 4 اپریل کو ایک عدالتی قتل ہوا ہے اور اس بار پارلیمان کا گلا گھونٹا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 12 سال سے سابق صدر زرداری نے ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کا جو ریفرنس نظرثانی کیلئے ڈالا ہے اس کو کیوں سرد خانے میں رکھا گیا ہے، اس کے علاوہ کئی اہم معاملات سرد خانے میں ہیں، اس پر کوئی فوری نوٹس بھی نہیں لیا جاتا، ہم گڑھے مردے نہیں اکھاڑنا چاہتے لیکن جو قومیں اپنی تاریخ سے نہیں سیکھتیں وہ پھر اسی تاریخ کے بھنور میں پھنسی رہتی ہیں، چینی کی قیمتوں میں مداخلت، ڈیم فنڈ قائم کرنے اور میونسپلٹیز کو چلانے اور بیورو کریسی کو لائنوں میں کھڑا کرتے ہیں، آج بیورو کریسی سے پوچھیں کہ کام کیوں نہیں ہو رہا، فائل کے پیچھے وزیراعظم کے آفس کو کیوں بار بار فون کرنا پڑتا ہے کہ فائل کو آگے بڑھائیں کیونکہ ان کا مؤقف یہ ہے کہ ہر معاملہ عدالت میں جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ سوال اٹھتا ہے کہ اس ملک کو کون چلا رہا ہے، ایگزیکٹو اور مقننہ تصادم نہیں چاہتے، پیپلز پارٹی نے ہمیشہ اپنے اور ملک کے زخموں پر مرہم رکھا، محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے فوری بعد جائے شہادت کو دھو دیا گیا، تب کسی کو اس کی تحقیقات کا خیال نہیں آیا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت لاڈلے کا تحفظ کیا جا رہا ہے، عدالتوں میں سیاست آ گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج پارلیمان کا خون ہوا ہے اور اس شب خون کو کوئی نہیں مانے گا، بے نظیر بھٹو کی شہادت پر پورا ملک سراپا احتجاج تھا، پورا ملک اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا، اس وقت دل پر پتھر رکھ کر پاکستان کھپے کا نعرہ دیا، پاکستان میں کچھ عرصہ سے جو رہا ہے یہ طاقت کا کھیل ہے اور اس تقسیم میں اپنے ملک کو اگر پھر بھنور میں ڈالا کہ طاقتور اپنی تلوار لہرا کر جمہوریت کا گلا گھونٹے گا تو تاریخ آپ کو کبھی معاف نہیں کرے گی، کچھ لوگوں کے نام تاریخ میں سیاہ حروف سے لکھے جائیں گے، عدالتیں انصاف دیں اور ایسا انصاف دیں جو ہوتا ہوا نظر آئے، جو فیصلہ آیا وہ اکثریت کا نہیں بلکہ اقلیت کا فیصلہ ہے جس کے دور رس اثرات نکلیں گے کیونکہ اقلیتوں کے فیصلے زور اور جبر سے مسلط ہوئے تو اس کی بہت بھاری قیمت ادا کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے پنجاب میں انتخابات کی جو تاریخ دی گئی ہے وہ آئین کے مطابق 90 روز تو نہیں بنتی، یہ تو 90 دن سے اوپر کی تاریخ دی گئی ہے، محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت اور ملک میں سیلاب کی وجہ سے انتخابات کی تاریخ آگے بڑھائی گئی، وزیر قانون نے اس پورے مقدمہ کو مدلل انداز میں سیاسی اور قانونی طور پر لڑا ہے، میں انہیں خراج تحسین پیش کرتی ہوں، انہوں نے ہمیشہ خندہ پیشانی کا مظاہرہ کیا، پاکستان کو اسی رویہ کی ضرورت ہے، ہم عدالت میں جاتے رہے، ہم نے کبھی وہاں شور شرابا نہیں کیا، ہم احترام کرتے رہے، ہمارے گھروں سے میتیں اٹھیں، عدالتی قتل ہوئے، دہشت گردی کا نشانہ بنے لیکن ہمیشہ پاکستان کو سب سے مقدم رکھا، پارلیمان نے اپنی غلطیوں کی قیمت ادا کی ہے، 3 اپریل 2022ء کو سپیکر کی کرسی پر بیٹھ کر ڈپٹی سپیکر نے آئین شکنی کی، اسمبلیاں توڑی گئیں، ہمیں کیوں دفاعی پوزیشن پر کھڑا کیا جا رہا ہے، ہم دفاعی پوزیشن پر اب کھڑے نہیں ہوں گے، یہ حق کی جنگ ہے اور پیپلز پارٹی ہمیشہ حق کی جنگ لڑتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن سے کون بھاگ رہا ہے اور ہم الیکشن سے کیوں بھاگیں گے، ہم الیکشن سے نہیں بھاگ رہے، ہم مشکل وقت میں دم دبا کر نہیں بھاگتے، ہم وزیراعظم اور حکومت کے ساتھ ہیںِ، ہم نے پاکستان کیلئے خون دیا، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، الیکشن کے نام پر ایک لاڈلے کی سلیکشن تو نہ کریں جس کی ضمانت گاڑی میں جا کر دی جاتی ہے اور ہماری خواتین کو چاند رات کو بکتر بند گاڑیوں میں ڈال کر جیل لے جایا گیا، فریال تالپور اور مریم نواز کی مثال سامنے ہے، یہ انصاف کے معیار ہیں، عدل و انصاف ملک کے استحکام اور توازن کیلئے ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے، ٹکرائو اور تصادم سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، پاکستان اس وقت اقتصادی لحاظ سے مشکل وقت سے گزر رہا ہے، 33 ملین لوگ بے گھر ہوئے، ہم نے ان کی مدد کی ہے، وہ کسی کو یاد نہیں کہ وہ کن حالات کے شکار ہیں، شہید ذوالفقار علی بھٹو کے افکار کو لے کر ہم کھڑے ہوں گے اور جبر کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا، یہ فیصلے قوم اور ریاست کی تقسیم کے مترادف فیصلے ہیں، ایک ادارہ کی عزت و توقیر بڑھے گی تو دوسرے کی بھی بڑھے گی،

فل کورٹ میں کیا قباحت تھی، اگر ملک کو آئینی اور سیاسی بحران سے نکالنے کیلئے فل کورٹ بن جاتی تو اس میں کیا حرج تھا، ایک طرف مردم شماری ہو رہی ہے اور دوسری طرف زبردستی الیکشن کرانے کا کہا جا رہا ہے وہ بھی 90 دن کے اندر نہیں بلکہ اس سے بالا جا کر نظریہ مصلحت کے تحت یہ فیصلہ دیا گیا، یہ مسئلہ اور آئینی بحران ان کا اپنا پیدا کردہ ہے اور وہی اس کا حل تلاش کریں، ہم آئین کے تابع ہر چیز کی سپورٹ کریں گے۔