اسلام آباد ۔ 23 نومبر (اے پی پی)وزارت منصوبہ بندی و ترقی کے ترجمان نے سی پیک کے حوالے سے امریکی دفتر خارجہ میں جنوبی ایشیائی امور کی اعلیٰ عہدیدارایلس ویلز کے خطاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی معاون خصوصی کا نکتہ نظر غلط تجزیوں اور حقائق کے برعکس جائزوں پر ہے۔ ہفتہ کو ترجمان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سی پیک سرمایہ کاری کے اہم شیئر توانائی منصوبوں کے لئے مختص کئے گئے ہیں۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ توانائی کے تمام منصوبے آئی پی پی موڈ میں ہیں اور اس لئے حکومت پاکستان پر اسکی کوئی مالی ذمہ داری عائد نہیںہوتی، انفراسٹرکچر منصوبوں کے لئے5.8 ارب ڈالر کی رقم مختص ہے اور یہ قرضہ 25 سال کی مدت کے ساتھ 2.34 فیصد رعایتی شرح پر ہے۔ اسی طرح سی پیک کے ثمرات 20 تا 25 سال کے عرصہ پر محیط ہیں اور اس کے ابتدائی ثمرات 2025 میں آنا شروع ہوجائیںگے۔اس لئے پاکستان اس کی ادائیگی کی بہتر پوزیشن میں ہے۔ آئی ایم ایف حکام نے اپنے آخری دورہ پاکستان کے دوران حقائق پر مبنی موقف کی توثیق کی تھی اور کہا تھا کہ انہیں سی پیک منصوبوں کے قرضوں اس کی شرائط تک پوری رسائی ہے اور قرضے قابل انتظام ہیں۔ انفراسٹرکچر ترقیاتی فیز میں روزگار کے مواقعوں سے متعلق سی پیک کے تحت بارہ منصوبوں سے جمع کردہ ابتدائی اعدادوشمار کے مطابق ان منصوبوں میں تقریبا80 ہزار سے زائد کارکنوں میں سے 90 فیصد پاکستانی ورکرز ہیں۔ ترجمان نے مزید کہا کہ سی پیک کے پہلے مرحلہ میں فزیکل انفراسٹرکچر کے قیام اور توانائی کی قلت پر قابو پانے پر دی گئی جو ہر معیشت کی ترقی کیلئے ناگزیر ہے اور سی پیک کے دوسرے مرحلے میں ہماری تمام تر توجہ صنعتی اور زرعی تعاون پر ہے ،دوسرے مرحلے میں 9 خصوصی اقتصادی زونزکا قیام ہماری اولین ترجیح ہے ،ان میں سے تین اقتصادی زونز پر تیزی سے کام جاری ہے۔ رشکئی میں خصوصی اقتصادی زونز کا سنگ بنیاد رواں سال کے آخر میں رکھا جائے گا۔ ان منصوبوں میں نہ صرف چین بلکہ دنیا بھر سے سرمایہ کاری متوقع ہے۔ترجمان نے کہا کہ نہ صرف صنعتوں کی منتقلی اور جوائنٹ وینچرز میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے بلکہ زرعی ترقی اور زرعی منصوعات کی برآمدات کے ذریعے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ مختصر یہ کہ سی پیک کے منصوبے قرضوں کے حوالے سے ملک پر کوئی بوجھ نہیں۔ مجموعی قرض میں اس کا شیئر چھ فیصد سے بھی کم ہے جبکہ ملکی سماجی اقتصادی ترقی میں اس کا حصہ نمایاں ہے۔