سینیٹ کاانتخاب براہ راست کرایاجائے، اراکین کو ترقیاتی فنڈز دیئے جائیں، قومی اسمبلی کی طرح سینیٹ کو بھی مالیاتی اعتبار سے بااختیار بنایا جائے، سابق و موجودہ سینٹرز کی تجاویز

57

اسلام آباد۔15مارچ (اے پی پی):سینیٹ کی گولڈن جوبلی تقریبات سے خطاب کرتے ہوئے سابق و موجودہ سینیٹروں نے تجویز دی ہے کہ سینیٹ کاانتخاب براہ راست کرایاجائے، اراکین کو ترقیاتی فنڈز دیئے جائیں، قومی اسمبلی کی طرح سینیٹ کو بھی مالیاتی اعتبار سے بااختیار بنایا جائے، ملک کی موجودہ معاشی و سیاسی صورتحال کاحل سیاسی قیادت مل بیٹھ کر نکالے، آئین پاکستان اور سینیٹ کا قیام پاکستان کے عوام کے لئے جمہوری قوتوں کا تحفہ ہے، اس کے تمام کرداروں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔

بدھ کو ایوان بالا کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے سینیٹر عابدہ عظیم نے کہا کہ خصوصی تقریبات پر شکر گزار ہیں۔ سابق سینیٹروں کاخیر مقدم کرتے ہیں۔ یہ چاروں صوبوں میں نمائندہ اور وفاق کی علامت ہے، اس ادارے کے ممبران کے لئے بھی ترقیاتی فنڈز ہونے چائیں۔ سینیٹر پرنس احمد عمر احمد زئی نے کہا کہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ بلوچستان اس کی میزبانی کر رہا ہے، اس پر سب کو مبارکباد دیتے ہیں۔سینٹر انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ پانچ دہائیوں کی تکمیل پر ہم مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ ہمیں جائزہ لینا ہوگا کہ یہ 50 سال کیسے کٹے۔ یہ وقت اپنے ماضی میں جھانکنے کا بھی ہے۔

مساوی نمائندگی کے لئے اس ادارے کا وجود عمل میں لایاگیا،اس ایوان میں جمہوری اقدار ، کرد ار اور استحکام میں اہم کردار اداکیا ہے۔ 1973 کے آئین کے کردار کو زندہ رکھا ہے ۔ہماری پارلیمانی اور سیاسی بقا اس آئین پر عملدرآمد میں پنہاں ہے۔ چیئرمین سینیٹ نے ایوان کو کمیٹی آف ہول میں تبدیل کر دیا جبکہ سابق سینیٹرز کو ایوان میں براجمان ہونے کے لئے بلالیا گیا ۔ سابق سینیٹر راجہ ظفر الحق نے کہا کہ میں ایسے محسوس کرتاہوں کہ 21، 22 سال بعد اپنے گھر واپس آیا ہوں۔

میں تعداد ، احترام اور ادارک کی وجہ سے اس کو اپنی فیملی سمجھا ہے۔ سینیٹ نے آئین ترامیم کے ذریعے اپنی عزت میں اضافہ کیا۔ اس کاکریڈٹ سینیٹرز اور چیئرمین کو جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ دنیاکی نسبت سینیٹ ملک کا ایک منفرد ادارہ ہے جس میں انتخاب کے ذریعے ممبران آتے ہیں باقی دنیا میں نامزدگیاں ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ سینیٹ کی مالی امور میں کردار صرف سفارشات تک ہے۔اس میں بہتری کی ضرورت ہے۔ مالیاتی انصاف کے بغیر جمہوریت کی بنیادیں مضبوط نہیں ہوسکتیں۔ سینیٹ کاملکی اقتصادی معاملات میں موثر کردار ہونا چاہیے۔ سینیٹ کے براہ راست انتخاب سے اس کی قوت میں اضافہ ہوگا۔

سابق قائد حزب اختلاف چوہدری اعتزاز احسن نے کہا کہ سینیٹ وفاقی اکایئوں میں توازن رکھنے کا حساس کام کرتا ہے۔ کسی اکائی کے درد کا مداوا یہ ادارہ کرتاہے۔ اس وقت بلوچستان کے جو حالات ہیں ان کا سیاسی حل تلاش کرنے کا کردار اداکرناچاہیے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سابق سینیٹر الیاس بلور نے کہا کہ ا س ملک میں اشرافیہ کے لئے جو ادارے بنائے گئے ہیں انہیں بیچا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے دور میں 15،15 دن کا جسمانی ریمانڈ ہوتا تھا آج دو روزہ جسمانی ریمانڈ کے بعد لوگ روتے باہر آتے ہیں۔ 90 دن میں انتخابات کا انعقاد کا ذکر آئین میں ہے تاہم کسی لاڈلے کی انا کی تسکین کے لئے اسمبلیاں توڑنے کے بعد 90 دن میں الیکشن ہوں یہ نہیں لکھا ۔

لاڈلے کی ضد کی وجہ سے ملک کو تباہی کی طرف لے جانے سے گریز کیاجائے۔ سابق ڈپٹی چیئرمین سینٹ جان محمد جمالی نے کہا کہ سینیٹ کے انتخابات براہ راست ہونے چاہئیں ۔ سینیٹ کو مالیاتی اعتبار سے مساوی اختیارات ہونے چاہئیں۔ اس وقت ہماری سیاست میں بدتمیزی کا عنصر حد سے بڑھ چکا ہے ۔اس میں میڈیا اور ہمارا بھی کردار ہے۔ سینیٹر سحر کامران نے کہا کہ سینیٹ کی گولڈن جوبلی اور پاکستان کے استحکام کی ضمانت آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی منا رہے ہیں۔ ملک کو یہ آئین دینے پرذوالفقار علی بھٹو کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔

آئین پاکستان وفاق کی علامت ہے ، اس کو اور سوک ایجوکیشن کونصاب کا حصہ بنایا جائے۔ سابق سینیٹر سید ہدایت اللہ شاہ نے کہا کہ آج ملک کی سیاست میں چھوٹے بڑے کی تمیز ختم ہو چکی ہے۔ ہماری دور میں ایسا نہیں تھا۔اس کاسد باب ضروری ہے ۔سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہاکہ 2023 کاسال گولڈن جوبلی کے طور پر منانے پر مبارکباد پیش کرتےہیں۔ جن لوگوں نے اس آئین کو بنایا اور جنہوں نے اس کاتحفظ کیاان کو خراج عقیدت اور تحسین پیش کرتےہیں اور جن لوگوں نے اس آئین پر حملے کیے اور اس کو پامال کیا اور جنہوں نے اس کو قانونی جواز مہیا کیااس کی مذمت کرتے ہیں۔ آئین پر حملوں کے باوجود یہ برقرار ہے۔

انہوں نے تجویز دی کہ اس ایوان کے باہر آئین کو پامال کرنے اور اس عمل میں معاونت کرنے والوں کے نام سیاہ حروف میں لکھے جائیں۔ سابق سینیٹر فرح عاقل شاہ نے کہا کہ سینیٹ میں تجاویز پر عملدرآمد ہونا چاہیے۔ ہم لوگوں کی توقعات پر پورا اترتے ہیں۔ سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ اس ایوان میں بے انتہا قانون سازی ہوئی۔ ادارے آئینی حدود میں نہیں رہتے ، یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ ہروقت جمہوری اداروں کو کمزور کیا جارہا ہے۔ سینیٹ کو اختیارات نہیں دیئے جارہے۔ اس ادارے کو مالیاتی فیصلے کرنے کااختیاردلایاجائے۔ بلوچستان کے مسائل آج بھی حل طلب ہیں۔

سینیٹر مولانا عطاالرحمن نے کہا کہ ہم ملک کی ترقی و خوشحالی کے لئے دعا گو ہیں۔ شب خون مارکر اس ملک کے چہرے کو آلودہ کیا گیاتاہم آج ہم ان باتوں کی بجائے خیر کاذکر کریں گے۔ ہم نےاس ملک سے بہت کچھ حاصل کیالیکن اس ملک کی وحدت کو بھی پارہ پارہ کیا ہے۔ 50 سال بعد بھی اگر یہ احساس ہو کہ وفاق کی علامت اس ایوان نے ملک کی اکائیوں کے بچائو کے لئے کردار ادا کیا وہ مزید کردار اداکرے تو ملک کو بچا سکتے ہیں۔ سینیٹر بہرہ مند تنگی نے گولڈن جوبلی تقریبات کے انعقاد پر مبارکبا د دیتے ہوئے کہا کہ اس ہائوس نے ہمیں عزت دی ہے۔ اٹھارویں ترمیم کا تحفہ دینے والی ٹیم کی سربراہی کااعزاز اس ایوان کو حاصل ہے۔

اس لئے صوبوں کو حقوق ملے ۔ سینیٹر دنیش کمار نے کہاکہ سینیٹ وفاق کی علامت ہے اس کی 50 سالہ تقریبات کاانعقاد قابل ستائش ہے۔ اس ایوان کو اہمیت دی جائے۔ ہم انا پرستی اور مفادات کے لئے ملک کا حشر خراب کر دیتے ہیں۔ تمام لیڈر ملک کے لئے اکٹھے ہوں۔ سابق چیئرمین سینیٹ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ مجھے اس ادارے کو جمہوریت کی اصل شکل میں پھلتے پھولتے دیکھ کرخوشی محسوس ہو رہی ہے۔ یہ ادارہ تمام شہریوں کے حقوق کا محافظ ہے۔ ہمارے ملک کو جن مسائل کاخطرہ ہے ان سے نمٹنے کے لئے سب کو متحد ہو کر کردار ادا کرنا ہوگا اور اس کے لئے سینیٹ کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔

سینیٹ کو ایک ادارے کے طور پر مضبوط بنانے کے لئے کردار ادا کرنا ہوگا۔ سینیٹر ہدایت اللہ خان نے کہا کہ متفقہ آئین پاکستان دینے پر ذوالفقار علی بھٹو اور دیگر کو خراج عقدیت پیش کرتے ہیں۔ 18 ویں ترمیم اور فاٹا سے متعلق ترامیم پر ہم ارکان کے شکر گزار ہیں۔ پارلیمان کے ذریعے تبدیلی جمہوریت کا حسن ہے۔ سڑکوں پر معاملات حل نہیں ہوں گے۔ اس وقت ملک کی صورتحال خراب ہے۔ اس کو تمام جماعتیں مل کر حل کریں۔ سینیٹر مولانا حسن محمد نے کہا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی ضروری ہے ۔اللہ اس ملک کو امن دے۔