شہباز شریف پر تمام الزامات سنگین ہیں، بریت کا کوئی امکان نہیں ، خرید و فروخت میں ملوث اراکین کے خلاف الیکشن کمیشن کو ایکشن لینا چاہیے، بیرسٹر شہزاد اکبر

41

اسلام آباد۔10فروری (اے پی پی):وزیراعظم کے مشیر برائے داخلہ و احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ شہباز شریف کے لندن کے کیس کا تحریری فیصلہ نہیں آیا، شہباز شریف پر تمام الزامات سنگین ہیں، ان کی بریت کا کوئی امکان ہی نہیں ہے، کل آنے والے ویڈیو سے ہماری تاریخ میں پہلی مرتبہ کوئی ثبوت سامنے آیا ہے، الیکشن کمیشن آئین کے تحت ایک آزاد ادارہ ہے، خرید و فروخت میں ملوث اراکین کے خلاف الیکشن کمیشن کو ایکشن لینا چاہیے، اپوزیشن ہر مرتبہ اصلاحات کا موقع ضائع کر دیتی ہے، اپوزیشن نے اپنے دور حکومت میں 18 ویں ترمیم تو کر لی لیکن الیکٹورل ریفارمز نہیں لے کر آئے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو نجی ٹی وی چینل کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف ہر پیشی پر عدالت میں جا کر تقریر کرنے لگتے ہیں، شہباز شریف پر کیس منی لانڈرنگ کا ہے اور جواب کچھ اور دیتے ہیں، شہباز شریف کے لندن کے کیس کا تحریری فیصلہ نہیں آیا، پاکستان میں شہباز شریف پر منی لانڈرنگ کے چارجز ہیں، شہباز شریف پر خبط سوارہے، ہر پیشی پر وہ ڈائس پر چلے جاتے ہیں، عدالت اتنا موقع نہیں دیتی لیکن شہباز شریف اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جج صاحب اکثر کہتے ہیں شہباز شریف جو باتیں کر رہے ہیں ان کا کیس سے کوئی تعلق نہیں، کیس منی لانڈرنگ کا ہوتا ہے، شہباز شریف کبھی میٹرو اور کبھی کسی پل کی بات کرتے ہیں اور کبھی شہباز شریف یہ بات کرتے ہیں کہ میں نہ پیسے کتنے بچائے ہیں۔ بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا کہ شہباز شریف کو جج کے سوالوں کا جواب دینا چاہیے، شہباز شریف پر سنگین الزامات ہیں جن کے جواب میں انہوں نے کوئی لفظ نہیں کہا، جب ان سے سوال کیا جائے تو پوری تقریر فرما دیتے ہیں، شہباز شریف پر تمام الزامات سنگین ہیں، ان کی بریت کا کوئی امکان ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ کل آنے والے ویڈیو سے ہماری تاریخ میں پہلی مرتبہ کوئی ثبوت سامنے آیا ہے، ہم چار ماہ پہلے آئینی ترمیم پارلیمان میں لے کر آئے تھے، اپوزیشن صرف ڈیسک بجاتی رہی آئینی ترمیم پر بحث نہیں ہو سکی۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان اپنے موقف پر آج بھی ڈٹے ہوئے ہیں، وزیراعظم عمران خان اراکین کی خرید و فروخت کا سلسلہ روکنا چاہتے ہیں اور اوپن بیلٹ کے تحت سینٹ الیکشن کروانے کا بنیادی مقصد بھی ہارس ٹریڈنگ کو روکنا ہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت میں رہتے ہوئے ووٹ لینا آسان ہو جاتا ہے، حکومت میں ہونے کے باوجود کہہ رہے ہیں کہ تمام جماعتوں کو نمائندگی کے مطابق سیٹیں ملیں، اگر سینٹ الیکشن سیکرٹ بیلٹ کے تحت ہوتا ہے تو اس کا نقصان اپوزیشن جماعتوں کو ہی ہو گا، اپوزیشن ہر مرتبہ اصلاحات کا موقع ضائع کر دیتی ہے، اپوزیشن نے اپنے دور حکومت میں 18 ویں ترمیم تو کر لی لیکن الیکٹورل ریفارمز نہیں لے کر آئے۔ ایک سوال کے جواب میں مشیر برائے احتساب نے کہا کہ میری آج بھی پرویز خٹک سے بات ہوئی ہے، جس جگہ پیسے دیئے جا رہے ہیں وہ سپیکر یا پرویز خٹک کا گھر نہیں ہے، جب فرانزک کیا جائے گا تو پتہ چل جائے گا کہ ووٹ خریدنے والے کون تھے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی نے سینٹ الیکشن میں اراکین کی خرید و فروخت کی ہوتی تو ہمارے زیادہ سینیٹرز منتخب ہوتے، اس وقت پیپلز پارٹی کے خیبرپختونخوا سے صرف 7 ووٹ تھے اور ان کے 2 سینیٹرز منتخب ہوئے، اراکین کو خریدنے والے وہی لوگ ہیں جنہوں نے فائدہ اٹھایا ہے۔ بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا کہ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ تنخواہوں میں فرق موجود ہے، صوبوں اور وفاق کی تنخواہوں اور پھر مختلف محکموں کے ملازمین کی تنخواہوں میں بھی فرق ہے، وفاق میں حکومت کو یہ مسئلہ درپیش آتا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد بجٹ کا 60 فیصد حصہ صوبوں کو چلا جاتا ہے، اس کے بعد صوبوں نے بہت سے محکموں کی تنخواہیں بہتر بھی کیں لیکن اس کے بعد وفاق غریب ہو گیا اور وفاق میں تنخواہیں اتنی اچھی نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت جو ملازمین احتجاج کر رہے ہیں ان کے بنیادی مطالبات یہ تھے کہ گریڈ 1 سے گریڈ 16 تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں 40 فیصد تک اضافہ کیا جائے اور اس مطالبہ کو حکومت نے تسلیم بھی کر لیا تھا، اس کے علاوہ وفاقی ملازمین کی اپ گریڈیشن کا مسئلہ بھی حل کر لیا گیا لیکن ان ملازمین کے مطالبات میں سے بہت سے مطالبات صوبائی حکومتوں سے تعلق رکھتے ہیں، صوبائی حکومتوں سے متعلق مطالبات پر صوبائی حکومتوں کا اختیار ہے کہ وہ ان کو حل کریں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آئین کے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان ایک آزاد ادارہ ہے اور صاف اور شفاف الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، بکنے والے اراکین کے خلاف پارٹی سطح پر یہی ایکشن لیا جا سکتا تھا کہ ان کو پارٹی سے نکال دیا گیا، باقی مزید تحقیقات اور کارروائی الیکشن کمیشن کو کرنی چاہیے اور ملوث افراد کو سزا ضرور ہونی چاہیے، ہارس ٹریڈنگ کو روکنے کے لئے سزا کا نظام رائج کرنا بھی ضروری ہے۔