اقوام متحدہ۔8ستمبر (اے پی پی): اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ عالمی ادارے کی طرف سے 2030 تک صنفی مساوات حاصل کرنے کا جو ہدف مقرر کیا گیا تھا، وہ دنیا بھر میں خواتین کے ساتھ صحت، تعلیم، روزگار اور اقتدار کے شعبوں میں گہرائی تک پیوست تفریق کی وجہ سے حاصل کرنا ناممکن ہو گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے اقتصادی اور سماجی امور سے متعلق شعبے کی جانب سے’’ دی جینڈر سنیپ شاٹ 2023 ‘‘کے عنوان سے جاری رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ خواتین اور لڑکیوں کو اختیارات دینے کے معاملے میں دنیا ناکام رہی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صنفی مساوات کو واضح طورپر مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اہم شعبوں میں مسلسل کم سرمایہ کاری بھی اس ناکامی کی ایک بڑی وجہ ہے اور کئی شعبوں میں جو ترقی ہوئی تھی وہ بھی پیچھے چلی گئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ صنفی اور تولیدی صحت تک غیرمساوی رسائی، نامساوی سیاسی نمائندگی، اقتصادی تفاوت اور قانونی تحفظ کی کمی ان مسائل میں شامل ہیں جوٹھوس ترقی کے راستے کو مسدود کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی نائب سکرٹری جنرل ماریا فرانسسکا اسپاٹولیزانو نے ایک پریس کانفرنس میں رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ صنفی مساوات ایک مسلسل دور ہوتا ہوا ہدف بنتا جا رہا ہے۔ جنگ زدہ اور غریب علاقوں میں رہنے والی خواتین کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران جو ترقی ہوئی تھی اب وہ بھی ختم ہوتی جارہی ہے۔
اقوام متحدہ نے خواتین کے حقوق کے حوالے سے 17 شعبوں میں اہداف حاصل کرنے کی بات کہی تھی۔ غربت کے خاتمہ سے لے کر تعلیم اور ماحولیاتی تبدیلی کے شعبوں میں طے کیے گئے ان اہداف کو 2030 تک حاصل کرنا تھا۔ رپورٹ میں انہیں اہداف میں ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق تصویر بہت مایوس کن ہے اور اس کا سبب حکومتوں کی جانب سے ان کا سردمہری کا رویہ ہے۔
خواتین کی غربت کو دور کرنے کے ہدف کے متعلق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آج بھی دنیا میں ہر دس میں سے ایک خاتون یعنی تقریباً10.3 فیصد خواتین 2.15 ڈالر یومیہ پرزندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور اگر یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو 2030 تک 8 فیصد خواتین اسی سطح پر آجائیں گی۔
ان میں سب سے زیادہ خواتین سب صحارا افریقہ میں رہتی ہیں۔ تعلیم کے شعبے میں ہونے والی ترقی کا ذکر کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا کہ خواتین اور لڑکیوں کو تعلیمی سہولیات فراہم کرنے میں مجموعی طور پر ترقی تو ہوئی ہے لیکن آج بھی کروڑوں لڑکیاں ہیں جو کبھی سکول نہیں گئیں،ان میں سے بیشتر تصادم والے علاقوں میں رہتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 2023 تک پوری دنیا سے 12.9 کروڑ لڑکیاں سکولوں سے باہر ہوسکتی ہیں اور اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو 2030 تک 11کروڑ لڑکیاں ایسی ہوں گی جو سکول نہیں جا رہی ہوں گی۔