اقوام متحدہ۔30اپریل (اے پی پی):پاکستان نے کہا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی ناکہ بندی کے باعث 20 لاکھ سےزیادہ فلسطینی قحط کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں ،عالمی برادری غزہ میں تقریباً 3 ماہ سے جاری اسرائیل کی ناکہ بندی کو ختم کرنے کے لئے فیصلہ کن اقدامات کرے اور دنیا بھر سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بھیجی گئی امداد کو جنگ سے تباہ حال علاقے میں داخل ہونے کی اجازت دے۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار احمد نے 15 رکنی سلامتی کونسل کے اجلاس میں مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر اعلیٰ سطح کی بحث کے دوران کہا ہے کہ غزہ کی ناکہ بندی اب ختم ہو جانی چاہیے ۔ انہوں نے فوری اور مستقل جنگ بندی کا مطالبہ بھی کیا۔ پاکستانی مندوب نے کہا کہ غزہ میں مایوسی اور تباہی کی اس صورتحال پر دنیا کو اقدامات کرنے چاہیئں، اس معاملہ پر سٹیٹس کو ( جمود ) ناقابل برداشت ہے ۔
انہوں نے کہا کہ جنگ بندی کے بغیرغزہ میں شہریوں کا تحفظ ہو سکتا ہے نہ ہی کوئی امداد وہاں پہنچ سکتی ہے اور نہ کوئی سیاسی عمل ممکن ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جنگ بندی کو مغربی کنارے تک بڑھانا چاہیے، جہاں اسرائیلی فوج اور یہودی آبادکاروں کی پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ ہو رہا ہے جس کے نتیجے میں روزانہ بے گناہ فلسطینی شہید ہورہے ہیں ۔ پاکستانی مندوب نے غزہ تک انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رسائی کے حوالے سے کہا کہ یہ کوئی رعایت نہیں ہے بلکہ قانونی ذمہ داری ہے۔
امدادی کارکنوں، قافلوں اور میڈیکل ٹیمز کو آزادانہ اور محفوظ طریقے سے کام کرنا چاہیے ۔ پاکستانی مندوب نے اس بات پر زور دیا کہ بھوک کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر معمول نہیں بنایا جا سکتا ، امداد کی فراہمی کو نہیں روکا جا سکتا۔انہوں نے کہا کہ غزہ کے مکینوں کی اجتماعی سزا کو ختم ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کو غزہ میں مکمل قحط کو روکنے کے لئے بڑے پیمانے پر اور مستقل امداد کو متحرک کرنا چاہیے اور فلسطینیوں کی زندگیوں کی بحالی اور تعمیر نو کا عمل شروع کرنا چاہیے، غزہ کے باشندوں کو ان کی سرزمین سے جبری بے دخل نہیں ہونا چاہیے۔پاکستانی مندوب نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ قبضے کو ختم کئے بغیر تشدد کا خاتمہ مستقبل میں تنازعات کے تسلسل کو دعوت دے گا۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی عوام ایک قابل اعتماد اور ناقابل واپسی سیاسی راستے کے مستحق ہیں اور ایک خودمختار اور قابل عمل ریاست فلسطین قائم ہونی چاہیے ، جس کی بنیاد 1967 کی سرحدوں پر مشتمل ہو جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو ۔ اس تناظر میں انہوں نے کہا کہ دو ریاستی حل کے حصول پر جون میں ہونے والی کانفرنس ایک اہم موقع ہے ، جس کی مشترکہ صدارت فرانس اور سعودی عرب کریں گے۔
اس کے ٹھوس نتائج برآمد ہونے چاہئیں جن میں فلسطینی ریاست کے لئے ایک ٹائم لائن، یہودی بستیوں کی توسیع کو منجمد اور اس اقدام کی واپسی ،شہریوں اور مقدس مقامات کے تحفظ کے لئے ٹھوس اقدامات اور اقوام متحدہ میں فلسطین کی مکمل، مساوی اور جائز رکنیت شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اس بات پر پختہ یقین رکھتا ہے کہ مسلسل قبضے سے مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن قائم نہیں کیا جا سکتا اور دنیا کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے۔
انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ 75سال کی ناکامی نے ایک ناقابل تغیر سچائی کواجاگر کیا ہے کہ قبضے کے ساتھ امن قائم نہیں رہ سکتا، نسل پرستی کے تحت انصاف پروان نہیں چڑھ سکتا اور جہاں لاکھوں لوگ بے وطن رہیں وہاں استحکام جڑ نہیں پکڑ سکتا۔ پاکستانی مندوب نے تنازعات کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور سلامتی کونسل کے مزید کام کرنے کے مطالبے کو یاد کرتے ہوئے ، نہ صرف بحرانوں کا جواب دینے کے لئے، بلکہ ان کی روک تھام کے لئے، اور جاری اور طویل تنازعات کے پرامن، منصفانہ، اور دیرپا تصفیے کو فروغ دینا، خاص طور پر جو غیر ملکی قبضے میں شامل ہیں۔
پاکستانی مندوب نے تنازعات کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس مقصد کو حاصل کرنے اور اقوام متحدہ کے چارٹر اور تمام لوگوں کے لیے بین الاقوامی قانون کے وعدے کو برقرار رکھنے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیئے۔ اس موقع اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریش نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے خوراک، ایندھن اور ادویات پر مشتمل امداد کی جاری ناکہ بندی کی مذمت کی جس نے 20 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو انسانی ہنگامی صورتحال میں دھکیل دیا ہے جو تصور سے بالاتر ہے۔
انہوں نے اسرائیلی حکام کے ان بیانات پر تشویش کا اظہار کیا جن میں کہا گیا کہ امداد کو فوجی فائدہ کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ سیکرٹری جنرل نے کہا کہ امداد کوئی سودے بازی کی چیز نہیں ہے۔ یہ ناقابلِ گفت و شنید ہے۔ انہوں نے غزہ میں فوری اور دیرپا جنگ بندی، تمام یرغمالیوں کی غیر مشروط رہائی اور مکمل انسانی رسائی کے مطالبات کی تجدید کی۔
انہوں نے بین الاقوامی قانون کو برقرار رکھنے، اقوام متحدہ کے اہلکاروں اور عمارتوں کے تحفظ اور امدادی کارکنوں پر اسرائیلی حملوں کے لیے جوابدہی کو یقینی بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔سیکرٹری جنرل نے مشرقی بیت المقدس سمیت مغربی کنارے پر بات کرتے ہوئے فلسطینیوں کی نقل مکانی، گھروں کی مسماری، نقل و حرکت پر پابندی اور اسرائیلی بستیوں کی توسیع کی وجہ سے بگڑتی ہوئی صورت حال کو بیان کیا جو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے علاقے کو نئی شکل دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں پر دبائو ڈالا جارہا ہے اور انہیں مجبور کیا جا رہا ہے۔
Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=590190