اسلام آباد ۔ 8 ستمبر (اے پی پی) گنجان آباد ایشیا پیسفک میں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی انسانی صحت کو درپیش ایک بہت بڑا چیلنج بن کر ابھری ہے جس سے ماحول، صحت عامہ اور زرعی فصلوں کی پیداوار پر دوررس اثرات مرتب ہو رہے ہیں تاہم یہ منفی اثرات جو غیرمعمولی معاشی مسائل، معاشی نمو اور ترقی و فلاح کو متاثر کر رہے ہیں ان سے نمٹنے کے لئے علاقائی سطح پر مربوط پالیسی اور منصوبہ بندی انتہائی اہم ہے۔ ان خیالات کا اظہار عالمی ماہرین نے فضائی آلودگی، ماحولیات اور آب و ہوا کی تبدیلی کے بارے میں آن لائن ”ایشیاء پیسفک میں علاقائی فضائی آلودگی” کے بارے میں منعقدہ مکالمہ میں کیا۔ منگل وزارتِ موسمیاتی تبدیلی کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق اس کا مقصد عوام میں حکومتی سطح پر شعور اجاگر کرنا ہے کہ صحت، پیداواری صلاحیت، معیشت اور ماحولیات کے لئے صاف ہوا انتہائی ضروری ہے۔ آن لائن بین الاقوامی مکالمہ کا اہتمام اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام،اقوامِ متحدہ کی اقتصادی اور سماجی کونسل نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔ اس موقع پر وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم نے کہا کہ ایشیاء پیسفک میں فضائی آلودگی جس میں 40 فیصد سے زیادہ ذرائع نقل و حمل سے ہورہی ہے جو خطہ کی تقریباً چار ارب سے زیادہ آبادی کو متاثر کرتی ہے جس سے سماجی و اقتصادی ترقی، فوڈ سیکیورٹی اور صحت، غذائی قلت، صحت، تعلیم، ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق امور کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔ انہوں نے تلقین کی کہ اگرچہ ایشیاء پیسفک کو درپیش تمام چیلنجوں میں سے ہوا کی آلودگی ایک اہم مسئلہ بن چکی ہے لیکن قابل عمل پالیسیوں اور اقدامات کے ذریعے بہتر اور مربوط علاقائی تعاون کے بغیر اس پر قابو پایا نہیں جاسکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بہت سارے ایشیاء پیسفک اور جنوبی ایشین ممالک میں ہوا کی آلودگی ایک سرحد پار مسئلہ ہے جہاں تمام ممالک کے باشندے ایک ہی فضا میں سانس لیتے ہیں، یہ خطہ کے دونوں ممالک میں غیر مستحکم پیداوار اور کھپت کے انداز کی وجہ سے اسی خطہ میں واقع تمام ممالک کی آبادی کو بھی متاثرکررہی ہے اس لئے ایشیاء پیسفک اور جنوبی ایشین خطوں میں سرحد کے دونوں اطراف کوششوں سے فضائی آلودگی کو ختم کرنے کے لئے اہم ہے۔ ملک امین اسلم نے کہا ذرائع کی علاقائی اور عالمی نوعیت اور فضائی آلودگی کے اسباب کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام ممالک کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ ملک امین اسلم نے موجودہ حکومت کے مختلف اقدامات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے سال ملک گیر تحریک کلین گرین پاکستان شروع کی گئی تھی ، اس کے علاوہ نہ صرف فضائی آلودگی کے اثرات سے لڑنے کے لئے توانائی، صنعت اور زراعت کے شعبوں میں بھی تبدیلی لانے کے لئے ٹین بلین ٹری سونامی پروگرام شروع کیا گیا تھا بلکہ صاف توانائی کے ذرائع کو مدِ نظر رکھتے ہوئے الیکٹرک وہیکل پالیسی پاکستان میں نافذ کی جا رہی ہے ، جس کا مقصد 2030ء تک تمام گاڑیوں اور ہیوی ڈیوٹی ٹرک کی فروخت میں30 فیصدکمی لانے اور 2040ء تک 90 فیصدتک الیکٹرک گاڑیوں کے استعما ل کو ممکن بنانا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ زراعت کے شعبے میں خاص طور پر سردی کے موسم میں فصلوں کو جلانا فضائی آلودگی کا سب سے بڑا سبب ہے جس کی حوصلہ شکنی کی جارہی ہے اور اینٹوں کے بھٹے سے ہونے والے نقصانات کو کم کرنے کے لئے پرانے طریقہ کار کو زگ زیگ اینٹوں پر منتقل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔کووڈ۔19 سے حاصل ہونے والے تجربات کا ذکر کرتے ہوئے ملک امین اسلم نے کہا کہ عالمی سطح پر فضائی آلودگی میں بڑے پیمانے پر کمی واقع ہوئی ہے جس سے آسمان آلودگی سے پاک ہو گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سابق سکریٹری جنرل بان کی مون نے اس تقریب سے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ پوری دنیا خصوصاً ایشیاء پیسفک اور جنوبی ایشیائی علاقوں میں فضائی آلودگی کے انتہائی واقعات میں اضافے کے بعد آلودگی کے خاتمے کے لئے عالمی اور علاقائی سطح پر مشترکہ اقدام کی اشد ضرورت ہے تاہم پہلی مرتبہ 7 ستمبر کو نیلے آسمان کے لئے صاف ہوا کا دن منانے سے عالمی سطح پر عوامی آگاہی میں اضافہ ہواہے۔ انہوں نے کہا کہ 2019ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یو این ای پی) کے ذریعہ قرارداد پیش کر کے اس دن کی منظوری لی گئی ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد ہر سطح پر عوامی شعور پیدا کرنا اور ہوا کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات کو فروغ دینے اور ان کیلئے سہولیات کی فراہمی پر زور دینا ہے۔مسٹر بان کی مون نے مزید کہا کہ یہ فضائی آلودگی انسانی زندگی پر انتہائی اثرات کی مثالوں میں سے ایک ہے، جو ہم سب کو متاثر کرتی ہیں۔ فضائی آلودگی نہ صرف انسان بلکہ جانوروں اور سیاروں کی صحت کو بھی متاثر کرتی ہے اور ایک اندازے کے مطابق موجودہ دور میں 70 لاکھ افراد فضائی آلودگی کی وجہ سے ہونے والی بیماریوں سے قبل از وقت ہلاک ہو رہے ہیں۔