کراچی۔4مئی (اے پی پی):گورنراسٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر نے کہا ہے کہ پائیدار ترقی کی فنانسنگ وقت کی ضرورت ہے اور مالی اداروں کا اس شعبے میں بے حد اہم کردار ہے، وہ اسٹیٹ بینک اور یونی لیور کی جانب سے مشترکہ طور پر منعقدہ ویب نار سے خطاب کررہے تھے جس کا مقصد اسٹیٹ بینک کی قابل تجدید توانائی فنانسنگ اسکیم کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا تھا جسے یونی لیور نے اپنی 30 فیصد فیکٹریوں کو قابل تجدید توانائی میں تبدیل کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔
منگل کو جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق ڈاکٹر باقر نے کہا کہ پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں چیلنج کا سامنا ہے اور اس کی روک تھام کی حکمت عملیاں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اس طرف توجہ دلائی کہ اسٹیٹ بینک نے قابل تجدید توانائی کے لیے فنانسنگ اسکیم ((https://www.sbp.org.pk/Incen-others/sme-4.asp)) جاری کی ہے تاکہ قابل تجدید توانائی کے منصوبوں کو فروغ دیا جاسکے۔ گورنر باقر نے اسکیم کے کلیدی پہلو اجاگر کیے جو کارپوریٹس سے لے کر افراد تک مختلف متعلقہ فریقں کے لیے مفید ہوسکتے ہیں۔ یہ اسکیم وقت گذرنے کے ساتھ ارتقا پذیر ہوئی ہے اور اس کا بھرپور خیرمقدم کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر باقر نے شرکا پر زور دیا کہ اس سہولت سے فائدہ اٹھائیں۔ فروری 2021 تک تقریبا850میگاواٹ پیداوار کے 521منصوبوں کے لیے تقریبا36 ارب روپے کی فنانسنگ فراہم کی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وسائل کے کارگر اور پائیدار استعمال میں مالی وسائل لگانے کا عمل ماحولیاتی تبدیلی کو کم کرنے میں مرکزی کردار ادا کرے گا۔ پاکستان 2015 سے گلوبل سسٹینے ایبل بینکنگ نیٹ ورک کا رکن ہے اور ماحولیاتیپائیداری کی فنانس پالیسیوں کو عالمی ماحولیاتی اور سماجی معیارات اور بہترین روایات سے ہم آہنگ کیا جارہا ہے۔
فنانسنگ اسکیمیں اپنے ماحولیاتی اثرات اور لاگت میں کمی کے عزائم دونوں لحاظ سے کمپنیوں کوزبردست سماجی اور کاروباری قدر کی پیشکش کرتی ہیں۔ پاکستان میں فنانسنگ اسکیم نے انہیں مالی طور پر قابل عمل رہتے ہوئے اپنے قابل تجدید تواائی کے مقاصد پر فوری عملدرآمد کرنے کے قابل بنا دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یونی لیور اس کا تبادلہ دیگر کارپوریٹ فریقوں کے لیے بہترین روایت کے طور پر کر رہا ہے کیونکہ یہ پائیدار اور اپنی بہترین شکل میں ہے۔ ان سے ملک اور ماحول کو فائدہ پہنچ رہا ہے جبکہ ان کے کاروبار پر بھی اس کا مثبت اثر دیکھنے میں آیا ہے۔
اسٹیٹ بینک کی قابل تجدید توانائی کی فنانسنگ اسکیم ایک جدت پسند حل پیش کرتی ہے جس کا مقصد پاکستان میں صاف توانائی میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ یہ توانائی کے آمیزے کو متنوع بنانے اور ماحولیاتی تبدیلی کے اثر کو کم کرنے کی ملکی کوششوں کا حصہ ہے۔ یہ اسکیم کئی قسم کے اداروں اور افراد کو400ملین روپے تا 6 ارب روپے مالیت کے مختلف قسم کے فنانسنگ آپشن فراہم کرتی ہے۔ ان میں کیپٹو انرجی یونٹس کے ساتھ ساتھ کمرشل منصوبے اور انفرادی صارفین شامل ہیں جو قومی گرڈ سے اضافی پیداوار کا تبادلہ کر سکتے ہیں۔
اسٹیٹ بینک نے قابلِ تجدید توانائی کے لیے اپنی فنانسنگ اسکیم 2016 میں جاری کی تھی، مثبت فیڈ بیک ملنے کے باعث اس اسکیم پر جولائی 2019 میں نظر ثانی کی گئی تھی۔ اسٹیٹ بینک نے اس اسکیم کا شریعت سے ہم آہنگ ورژن بھی اگست 2019 میں متعارف کرایا تھا۔ اس اسکیم کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کی بجلی کی بڑھتی ہوئی طلب کو قابلِ تجدید ذرائع سے پورا کیا جائے اور پائیدار ترقی کے اہداف (Sustainable Development Goals) کے سلسلے میں صاف توانائی کے منصوبوں کو فروغ دیا جائے۔ اس میں بجلی بنانے کے لیے مقامی وسائل مثلا ہوا، شمسی توانائی اور آبی ذرائع کے استعمال کو فروغ دیا جاتا ہے، اور ساتھ ساتھ صارفین کو بھی قابلِ تجدید توانائی کے استعمال کی ترغیب دی جاتی ہے تاکہ نیپرا کے نیٹ میٹرنگ ضوابط کی تعمیل ہو۔
اس فنانسنگ اسکیم کے سلسلے میں یونی لیور نے پنجاب میں چار فیکٹریوں میں قابل تجدید توانائی کے 8.85 میگاواٹ کے پیداواری یونٹ قائم کرنے کے لیے اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک کے توسط سے 833 ملین روپے کا قرض لیا۔ یہ کاوش یونی لیور کے اپنے مینوفیکچرنگ پراسس میں کاربن میں کمی لانے اور پائیداری کے عالمی مشن سے ہم آہنگ ہے۔ یونی لیور نے 2030 تک اپنے آپریشنز سے کاربن کے اخراج کو ختم کرنے کے ساتھ 2039 تک اپنی مصنوعات سے اس کے خالص صفر اخراج کو ختم کرنے کا عہد کیا ہے ، جو 2050 کے پیرس معاہدے سے 11 سال قبل ہوگا۔
رئیون انرجی لمیٹڈ نے قابلِ تجدید توانائی کے منصوبے پر عملدرآمد کیا اور سالانہ 13 ملین کلوواٹ یونٹس توانائی پیدا کی، جس سے 182 ملین روپے سالانہ کی بچت کے ساتھ ساتھ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں 5072 ٹن کمی آئی۔ ایسے منصوبوں، جنہیں یونی لیور نے پای تکمیل تک پہنچایا، سے ثابت ہوتا ہے کہ قابل تجدید توانائی پر مبنی منصوبے پاکستان میں صنعتوں کے لیے خاصے فائدہ مند ہیں۔اس ویب نار میں متعدد ایوان ہائے صنعت و تجارت، میڈیا تنظیموں، بینکوں کے صدور اور سی ای اوز، ماہرینِ توانائی، پاکستان بزنس کونسلکے نمائندوں اور اسٹیٹ بینک کے سینئر افسران نے شرکت کی۔