قومی آبی پالیسی 2018ء پر عملدرآمد سے متعلق ورکشاپ کا انعقاد ، شرکاء کا پانی کی بچت، بہتر مینجمنٹ، آبی ذخائر کی تعمیر پر زور

81

اسلام آباد۔21جولائی (اے پی پی):قومی آبی پالیسی 2018ء پر عملدرآمد سے متعلق ورکشاپ کے شرکاء نے ملک میں پانی کی بچت، بہتر مینجمنٹ، آبی ذخائر کی تعمیر اور زرعی شعبہ میں آبپاشی کیلئے ڈرپ ایریگیشن اور سپرنکلر سسٹم متعارف کرانے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو پانی کی قلت کے مسئلہ سے نمٹنے کیلئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے، پینے کے پانی، آبپاشی، لائیو سٹاک، پن بجلی، ماحول کے تحفظ اور دیگر معاملات سے متعلق ٹھوس حکمت عملی اور طویل المدت پالیسیاں بنانا ہوں گی، پانی کے ضیاع کو روکنے اور کسانوں میں جدید زرعی ٹیکنالوجی سے متعلق شعور اجاگر کرنے کیلئے اقدامات ناگزیر ہیں۔

جمعرات کو ایک روزہ ورکشاپ کا انعقاد واپڈا سٹاف آڈیٹوریم میں کیا گیا۔ ورکشاپ میں وفاقی وزیر آبی وسائل سید خورشید احمد شاہ نے کلیدی خطاب کیا اور ملک میں آبی ذخائر کی تعمیر، زرعی شعبہ کی ترقی، زرعی پیداوار میں خود کفالت کے حصول، ماحول کے تحفظ، پانی کی منصفانہ تقسیم، پانی کے بہتر استعمال اور بچت کے حوالہ سے تفصیلی اظہار خیال کیا۔ ورکشاپ میں ملکی اور غیر ملکی آبی ماہرین، چیئرمین واپڈا، چیئرمین ارسا اور چیئرمین فیڈرل فلڈ کمیشن نے بھی شرکت کی اور ملک میں پانی کے مسائل کے حل اور ملک کی آبی ضروریات پوری کرنے سے متعلق تجاویز دیں۔

سیکرٹری آبی وسائل ڈاکٹر کاظم نیاز نے قومی آبی پالیسی پر عملدرآمد سے متعلق حکومتی اقدامات سے شرکاء کو آگاہ کیا۔ ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے سی ایس آئی آر او آسٹریلیا ڈاکٹر میک کربی اور روم کے بین الاقوامی زرعی تحقیق سے متعلق مشاورتی گروپ کے نمائندے ڈاکٹر سٹیفن ڈیوس نے قومی آبی پالیسی میں مستقبل کی منصوبہ بندی، ڈرپ ایریگیشن کے فروغ، سپرنکلر اور لینڈ لیزر لیولنگ کیلئے مختلف اقدامات تجویز کئے اور کہا کہ ڈرپ ایریگیشن سے متعلق لوگوں کو آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے، ڈرپ ایریگیشن کے فروغ سے پاکستان کا زرعی منظرنامہ تبدیل ہو جائے گا۔

انہوں نے پانی کی بچت اور بہتر مینجمنٹ اور ماحول کے تحفظ کے حوالہ سے بھی اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔ جوائنٹ سیکرٹری آبی وسائل سید محمد مہر علی شاہ نے ورکشاپ کے شرکاء کو قومی آبی پالیسی کے مقاصد اور اہداف سے آگاہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ پانی بنیادی طور پر صوبائی معاملہ ہے اور وفاقی حکومت اس پر قانون سازی نہیں کر سکتی، اس میں صوبوں کا بنیادی کردار ہے تاہم پانی کو وفاقی سطح پر پالیسی کے طور پر لیا جانا چاہئے۔

انہوں نے بتایا کہ قومی آبی پالیسی پر عملدرآمد کیلئے ایک سٹیئرنگ کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس کے 2 اجلاس ہو چکے ہیں، پالیسی پر عملدرآمد فریم ورک کی منظوری ہو چکی ہے، اب اس حوالہ سے مزید پیشرفت کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

ورکشاپ کے مختلف سیشنز ہوئے جن میں پانی کے انتظام، پانی کی بچت، موجودہ اور مستقبل کی ضروریات اور دیگر امور پر تفصیلی تجاویز زیر غور آئیں۔ ورکشاپ میں موسمیاتی تبدیلی، وزارت قومی غذائی تحفظ، ارسا، فیڈرل فلڈ کمیشن، محکمہ موسمیات، پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے زراعت کے محکموں، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر، منصوبہ بندی و ترقی کے سیکرٹریز اور دیگر افسران کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے دانشوروں اور متعلقہ افراد نے شرکت کی۔

اس موقع پر ماہرین سوال و جواب کی نشست کا بھی انعقاد کیا گیا۔ اختتامی سیشن میں آبی وسائل کے انتظام اور ضروریات سے متعلق مختلف رپورٹس بھی پیش گئیں۔ ملک میں پانی کی قلت کے مسئلہ سے نمٹنے اور پانی کی دستیابی کو بہتر بنانے کے حوالہ سے یہ ورکشاپ انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ آبی ماہرین کی آراء اور تجاویز کی روشنی میں ملک میں آبی وسائل کے تحفظ اور قومی آبی پالیسی پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے گا۔