لاء اینڈ جسٹس کمیشن نے وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز ریگولیشنز اینڈ کوآرڈینیشن اور اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کے تعاون سے آبادی بارے قومی کانفرنس منعقد کی

85

اسلام آباد۔15جولائی (اے پی پی):لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان (ایل جے سی پی) نے وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز ریگولیشنز اینڈ کوآرڈینیشن اور اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ (یو این ایف پی اے) کے تعاون سے ” مستحکم پاکستان : آبادی اور وسائل کا تعین” کے موضوع پر دو روزہ قومی کانفرنس منعقد کی ۔ 14 اور 15 جولائی 2023ء کو آبادی اور وسائل کے تعین کے حوالہ سے کانفرنس انسانی حقوق کے کیس نمبر 17599/2018 کے تناظر میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے آبادی کے انتظام کی پالیسیوں کے نفاذ کا جائزہ لینے کے حوالہ سے منعقد کی گئی۔

لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کی جانب سے ہفتہ کو کانفرنس کے دوسرے اور آخری روز جاری اعلامیہ کے مطابق پالیسی سازوں اور ماہرین نے آبادی بارے پالیسیوں کے نفاذ میں درپیش رکاوٹوں کا خاکہ پیش کرنے اور پاکستان میں آبادی میں مناسب اور پائیدار اضافہ کو یقینی بنانے کی تجاویز مرتب کرنے کے لیےدو روز سپریم کورٹ آف پاکستان میں اجلاس کیا تھا۔ پریس ریلیز کے مطابق کانفرنس کے دوسرے دن اعلیٰ اور ضلعی عدلیہ کے ججوں، معروف ماہرین تعلیم، غیر ملکی معززین، ماہرین اور قومی اور بین الاقوامی قانونی برادری کے ارکان نے سیشنز میں کثیر تعداد میں شرکت کی۔

کانفرنس کے دوسرے روز کا آغاز کانفرنس کے تیسرے سیشن سے ہوا جس کا عنوان تھا ’’پاکستان کے لیے آبادیاتی رجحانات اور مضمرات‘‘۔ اجلاس کی مشترکہ صدارت سپریم کورٹ کے جج جسٹس امین الدین خان اور ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کی۔ سیشن کے مقررین نے آبادیاتی رجحانات اور عام آبادی بالخصوص خواتین اور بچوں پر ان کے اثرات کے زمینی حقائق پر مشتمل تفصیلی ڈیٹا شیئر کیا۔ اس موقع پر سیشن کے پینلسٹس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پاکستان کی نوجوان آبادی کی سماجی و اقتصادی ترقی کے لیے ایک منفرد موقع ہے اور ان کی صلاحیتوں کو مکمل طور پر بروئے کار لانے کے لیے ایک کراس سیکٹرل اپروچ کی ضرورت ہے۔ کانفرنس کے دوسرے سیشن کا عنوان "معاشی اور سماجی ہم آہنگی کے امکانات”۔ سیشن میں پائیدار مستقبل کے لیے مائیکرو اور میکرو لیول کی تبدیلیوں پر توجہ مرکوز کی گئی اور اس کا آغاز سیشن کی صدارت کرنے والے سپریم کورٹ کے جج جسٹس محمد علی مظہر کی ایک پرجوش تقریر سے ہوا۔ انہوں نے پاکستان کے بہتر مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے نوجوانوں کی شمولیت اور ان پر سرمایہ کاری کی ضرورت پر زور دیا۔

سیشن کے پینلسٹس نے نوجوانوں کے لیے ایک سازگار ماحول پیدا کرنے کے مختلف طریقے تجویز کیے، جس کے نتیجے میں سب کے لیے آبادیاتی منافع اور پائیدار ترقی کے حوالہ سے بالخصوص شہروں کو نقل مکانی اور موسمیاتی تبدیلی کی روشنی میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔شہزاد رائے (گڈ ول ایمبیسیڈر، پاپولیشن پلاننگ) نے خاندانی منصوبہ بندی کی وکالت کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ خاندانی منصوبہ بندی کو موثر بنانے کے لیے لوگوں کی ذہنیت کو بدلنا ضروری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ایک ایسے پراجیکٹ پر کام کر رہے ہیں جس کے تحت جوڑوں کو نادرا کے ساتھ اپنے نکاح کی رجسٹریشن کی شرط کے طور پر ’ری پروڈکٹیو ہیلتھ کورس‘ کرنا ہو گا۔ شہزاد رائے نے اپنے گیت ‘سوچو پھر سے ذرا’ کی پرفارمنس کے ساتھ سیشن کا اختتام کیا۔ جسے ایک غیر پیدائشی بچے کے نقطہ نظر سے گایا گیا ہے اور اس میں خوبصورت انداز میں خاندانی منصوبہ بندی کی وکالت کی گئی ہے۔

سپریم کورٹ کی جج جسٹس عائشہ اے ملک کی زیر صدارت کانفرنس کے دوسرے روز کے آخری سیشن "خواتین کے حقوق، ان کو با اختیار بنانا اور مساوات” کے موضوع پر منعقد ہوا۔ سیشن کا آغاز ڈینی کیٹا (اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل، اقوام متحدہ اور نائب ایگزیکٹو ڈائریکٹر یو این ایف پی اے پروگرام کے ایک ویڈیو پیغام سے ہوا۔ انہوں نے پاکستان کو اس کی مکمل صلاحیت تک پہنچنے میں مدد کرنے کے لیے یو این ایف پی اے کے مسلسل عزم کی کا اعادہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ تین پہلوؤں یعنی صلاحیت اور انسانی سرمائے میں سرمایہ کاری اور مواقع تک رسائی کے ذریعے مطلوبہ اہداف کے حزول کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ خواتین کے حقوق کی کارکن اور نیشنل کمیشن آن سٹیٹس آف ویمن کی سابق چیئرپرسن محترمہ خاور ممتاز نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کو بااختیار بنانے کے تین اہم اجزاء ہیں جن میں تعلیم، روزگار اور ان کی خود مختاری شامل ہیں۔ پاکستان میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن مشن کی سربراہ اور نمائندہ ڈاکٹر پالیتھا گناراتھنا مہیپالا نے پاکستان میں خواتین کو درپیش صحت کی دیکھ بھال کے مخصوص مسائل کا خاکہ پیش

کیا جن پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جن میں زچگی، جنسی اور تولیدی صحت سے متعلق مسائل شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ "خواتین کے حقوق کوئی خواہش نہیں، بلکہ ملک کی ترقی کے لیے بنیادی ضرورت ہے”۔ محترمہ شہناز وزیر علی (صدر، ایس زیڈ اے بی آئی ایس ٹی) نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کس طرح سماجی طور پر بنائے گئے اصول لڑکیوں کو کم عمری سے ہی محروم کر دیتے ہیں، جس سے غیر مساوی حقوق اور امتیازی سلوک ہوتا ہے جو بالغ ہونے کے ناطے ان پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ محترمہ فوزیہ وقار (خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف وفاقی محتسب) نے خواتین کو قائدانہ کردار میں رکھنے اور انہیں فیصلہ سازی کے عمل میں شامل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کام کی جگہوں کو فعال کرنے کی ضرورت ہے جہاں بنیادی سہولیات جیسے باتھ روم اور ڈے کیئر سینٹرز موجود ہوں۔

کانفرنس کے دوران مقررین کی طرف سے مشترکہ جذبات کا اظہار نہ صرف تیزی سے آبادی میں اضافے کے مسئلے بلکہ اس کے موجودہ اور مستقبل کے مضمرات سے نمٹنے کے لیے ایک جامع اور کثیر شعبوں کے نقطہ نظر کی ضرورت تھا۔ ڈاکٹر امجد ثاقب (سی ای او، اخوت فاؤنڈیشن) نے ملک کو اشرافیہ کی گرفت سے نجات دلانے کی ضرورت اور ایک اجتماعی ذمہ داری کے طور پر سماجی تحفظ کی اہمیت پر زور دیا۔ کانفرنس کے دوران، مختلف پینلسٹس نے یہ بھی سفارش کی کہ خواتین کی صلاحیتوں میں سرمایہ کاری کرنے اور معاشی ترقی کو تیز کرنے کے لئے ان کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ جسٹس عائشہ اے ملک نے اس بات پر زور دیا کہ "آبادی کا انتظام افراد کو کنٹرول کرنے کے بارے میں نہیں ہے بلکہ ان کے بنیادی حقوق سے لطف اندوز ہونے کے بارے میں ہے”۔

انہوں نے مزید کہا کہ "جنسی مساوات صرف انصاف کے بارے میں نہیں ہے، یہ پائیدار ترقی کے لیے ایک سہولت کار ہے کیونکہ یہ نصف آبادی کی صلاحیت کو نکھارتی ہے۔ ڈاکٹر آصف افتخار (فیلو المورد فاؤنڈیشن فار اسلامک ریسرچ؛ فیکلٹی ممبر، لمز ) نے پائیدار ترقی کے بارے میں مذہبی نقطہ نظر پیش کرتے ہوئے کہا کہ "جب ہم ماضی کی روایات کی تعظیم کرتے ہیں اور انہیں قرآن و سنت سے ہم آہنگ کرتے ہیں تو ہم ان کا دائرہ محدود کر دیتے ہیں۔ انہوں نے تبدیلی لانے کے امکان پر زور دیا کہ عوام کو آگاہ کرنے اور اسلام میں خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں غلط فہمیوں کو ختم کرنے کے لیے کھلے مکالمے اور گفتگو کو اپنایا جائے۔ ڈاکٹر قبلہ ایاز، (چیئرمین، اسلامی نظریاتی کونسل) نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ توازن اور تنظیم آبادی سے نمٹنے کا بہترین طریقہ ہے اور خاندانی منصوبہ بندی کے نتیجے میں بچوں کا معیار زندگی بہتر ہوتا ہے۔

جسٹس عائشہ اے ملک نے ریمارکس دیئے کہ جب کہ "آگے کا راستہ طویل اور چیلنجنگ ہے” پھر بھی "اگر ہم اپنی خواتین پر سرمایہ کاری کریں تو اہداف قابل حصول ہیں۔ سیکرٹری ایل جے سی پیرفعت انعام بٹ، نے شکریہ کے کلمات کے ساتھ کانفرنس کا اختتام کیا۔ بعد ازاں ڈاکٹر سبینہ درانی (ڈی جی، پی پی ڈبلیو، وزارت صحت) نے کانفرنس کے اہم نتائج کا خلاصہ پیش کیا اور سفارشات کا مجموعہ پیش کیا۔ وزارت صحت کی توثیق، جو بات چیت سے اخذ کردہ اجتماعی بصیرت اور قابل عمل حکمت عملیوں کی عکاسی کرتی ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال نے اپنے اختتامی کلمات میں کانفرنس کے معزز اراکین کی گراں قدر شرکت اور موجودگی کو سراہتے ہوئے آرگنائزنگ کمیٹی کو ایسا بامعنی پلیٹ فارم فراہم کرنے پر ان کی کاوشوں کا اعتراف کیا۔ انہوں نے مستقبل کے لیے امید اور حوصلہ افزائی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کانفرنس نے حکومت کے لیے معاشرے کی بہتری اور عوامی مفاد کے لیے آبادی کے انتظام کو فروغ دینے والے قوانین اور پالیسیاں بنانے کے لیے مواقع کا ایک نیا در وا کر دیا ہے۔ تقریب کا اختتام مقررین کو سووینئرز اور آرگنائزنگ ممبران کو سرٹیفیکیٹ دینے کے ساتھ ہوا۔ کانفرنس نے ایک اہم سنگ میل عبور کیا ہے۔