اقوام متحدہ ۔ 28 مارچ (اے پی پی) اقوام متحدہ میں مختلف ممالک کے سفارتکاروں نے کہا ہے کہ مسعود اظہر کے حوالے سے نئی امریکی قرار داد کا مسودہ اقوام متحدہ کے قواعد و ضوابط کے منافی، انہیں نظر انداز کرنے کی کوشش اور اوچھی حرکت ہے جس کا مقصد اپنی خفت مٹانا اور بھارت کو خوش کرنا ہے۔ امریکا نے کالعدم تنظیم کے سربراہ مسعود اظہر کو بلیک لسٹ کرانے کی کوشش میں ناکامی کے بعد اس حوالے سے ایک نئی قرار داد کا مسودہ سلامتی کونسل کے ارکان میں تقسیم کیا ہے اور اس امریکی اقدام کو اقوام متحدہ میں مختلف ممالک کے سفارتکاروں نے عالمی ادارہ کے مسلمہ قواعد و ضوابط کے منافی اور ان کو نظر انداز کرنے کی کوشش قرار دیا ہے جو ایک اوچھی حرکت ہے۔سفارتکاروں نے اس اقدام پر شدید حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکا اس کے ذریعے ایک طرف اپنے پہلے اقدام کی ناکامی کی خفت مٹانا چاہتا ہے اور دوسری طرف بھارت کو خوش کرنا چاہتا ہے۔قبل ازیں اس حوالے سے امریکا، برطانیہ اور فرانس کی پیش کردہ قرار داد کو چین نے ٹیکنیکل ہولڈ پر رکھواتے ہوئے کہا تھا کہ اس معاملے پر مزید مشاورت درکار ہے۔امریکی حکام نے جوابی کارروائی کے طور پرغیر معمولی اقدام کرتے ہوئے سلامتی کونسل کو براہ راست قرار داد پیش کرتے ہوئے مسعود اظہر پر سفری پابندیاں عائد کرنے اور اثاثے منجمد کرنے کا مطالبہ کیا۔چین نے اقوام متحدہ کے عالمی فورم پر ہمیشہ پاکستان کی اخلاقی اور اصولی حمایت کی ہے۔چین نے اس بات کی بھی حمایت کی ہے کہ کمیٹی نمبر 1267 میں پیش کئے جانے والے تمام امور کو متعلقہ فریقوں کے درمیان مشاورت سے حل کیا جانا چاہیے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گذشتہ کئی سال کے دوران یہ کمیٹی سیاسی اثر و رسوخ کا شکار ہو کر متنازعہ ہو چکی ہے جس کی واضح مثال یہ ہے کہ پاکستان کی طرف سے پیش کی گئی دہشت گردوں کی فہرستوں کو امریکا کی طرف سے بلاک کیا گیا۔ان اقدامات کے ذریعے پاکستان نے ملا خراسانی اور مولانا فضل اللہ سمیت متعدد ایسے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا جو افغانستان فرار ہو چکے ہیں۔اس حوالے سے پاکستان کی طرف سے پیش کی گئی سات ترامیم کو مختلف بہانوں سے بلاک کیا گیا جو اقوام متحدہ کی کمیٹی 1267کے امتیازی سلوک کا مظہر ہے۔اس کے علاوہ پاکستان میں بھارت اور افغانستان کی مداخلت کی مذمت کرنے کی پاکستانی کوششوں کو بھی بلاک کیا گیا۔واضح رہے کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان یہ واضح کر چکے ہیں کہ پاکستان 14 فروری کو پلوامہ میں بھارتی فوج پر حملے کی تحقیقات میں تعاون کرے گا اور بھارت کی طرف سے قابل عمل شواہد فراہم کرنے کی صورت میںکارروائی کرے گا۔