معاشرے میں خواتین کے تحفظ اور استحصال کے خاتمے کے لیے ہمیں حکومتی پالیسی اور قوانین کے عملی نفاذ کے درمیان فاصلوں کو کم سے کم کرنا ہو گا ، مشعال ملک

99
مشعال ملک

اسلام آباد۔29اگست (اے پی پی):وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے انسانی حقوق مشعال ملک نے کہا ہے کہ معاشرے میں خواتین کے تحفظ اور استحصال کے خاتمے کے لیے ہمیں حکومتی پالیسی اور قوانین کے عملی نفاذ کے درمیان فاصلوں کو کم سے کم کرنا ہو گا ۔متاثرہ افراد کو اس بات کا یقین دلانا ہوگا کہ وہ کمزور نہیں۔  ان خیالات کا اظہار انھوں نے منگل کو یہاں حکومت پاکستان اور یو این وویمن کے زیر اہتمام خواتین کے تحفظ اور استحصال کے خاتمے کے حوالے سے نیشنل کانفرنس آف سروس پرووایڈرز میں کیا۔

کانفرنس میں خواتین کو حقوق و انصاف کی فراہمی اور استحصال کے خاتمے کے حوالے سے مختلف سٹیک ہولڈرز کے نمائندوں نے شرکت کی ۔ وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے انسانی حقوق مشعال ملک نے کہا کہ بھارت کے غیرقانونی زیرقبضہ جموں و کشمیر میں خواتین سے زیادتی کو بھارتی قابض افواج ایک جنگی ہتھیار اور ریاستی پالیسی کے طور پر استعمال کر رہی ہے اور زیادتی اور تشدد کے ان المناک واقعات میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کی بیٹی ہونے کی حثیت سے مجھے بخوبی اندازہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں خواتین پر کیا گزرتی ہے۔

میں جب بھارتی جیل میں قید کشمیری حریت راہنما اپنے خاوند یسین ملک سے جیل میں ملنے گئی تو اس وقت جس طرح میری تلاشی لی گئی مجھے وہ ہراساں کرنے جیسا لگا۔انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کی خواتین کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ نہ صرف مقبوضہ کشمیر بلکہ پاکستان میں بھی کمزور طبقات بشمول بچوں اور خواتین کے حقوق کے تحفظ کی بھی مضبوط آواز بنیں گی ۔ گذشتہ چند سالوں میں پاکستان میں خواتین کے حقوق اور استحصال کے خاتمے کے حوالے سے کافی کام ہوا ہے جس کا اظہار جسٹس منصور علی شاہ نے بھی اپنے اظہار خیال میں کیا ہے ۔

مشعال ملک نے زور دیا کہ اس تمام تر پیش رفت کے باوجود ہمیں پاکستان میں صنفی امتیاز کے خاتمے کے لیے مزید موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور قوانین بنانے کے ساتھ ساتھ ان کے عملی نفاز کو بھی یقینی بنانا ہے جس کے لیے معاشرے کے ہر فرد کو ایک سازگار ماحول کو پروان چڑھانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پولیس ، عدلیہ اور قانون کا شعبہ خواتین کے تحفظ کے حوالے سے بنیادی ادارے ہیں لہذا ہمیں ان اداروں میں خواتین کی زیادہ سے زیادہ شرکت کی حوصلہ افزائی کرنی ہے جس سے نہ صرف ان اداروں میں خواتین کے خلاف امتیازی سلوک میں کمی آئے گی بلکہ انصاف کے حصول کے لیے ایک سازگار ماحول بھی پیدا ہو گا۔

متاثرین کو یہ ماننے کی ضرورت ہے کہ اب وہ کمزور نہیں۔ہمیں متاثرین کی کائونسلنگ کرنے اور انہیں مضبوط کرنے کی ضرورت ہے ۔ مردوں کو بھی چاہیئے کہ وہ اپنی خواتین کی حوصلہ افزائی کریں ۔ انہوں نے اس امر پر بھی زور دیا کہ صنفی امتیاز کے خاتمے کے لیے میڈیا کا کردار انتہائی کلیدی ہے جس کی موثر آگاہی مہم کے ذریعے صنفی امتیاز اور استحصال سے پاک معاشرے کی تشکیل کا اہم سنگ میل عبور کیا جا سکتا ہے۔