معاشی بحران کا حل امداد نہیں تجارت ہے، افتخار علی ملک

255

اسلام آباد۔14جولائی (اے پی پی):صدر سارک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری افتخار علی ملک نے کہا ہے کہ امداد کی بجائے تجارت اور سرمایہ کاری کو ملک کے ترقیاتی اہداف کے حصول کا معیار ہونا چاہئے۔ جمعرات کو مومن علی ملک کی قیادت میں صنعتکاروں اور تاجروں کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امداد پہلے کسی ملک کی معاشی ترقی کو روکتی ہے اور بالآخر اسے ختم کر دیتی ہے۔

مزید برآں امداد وصول کرنے والے ممالک اپنے محسنوں اور امداد دینے والی ایجنسیوں پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں جس کی وجہ سے یہ امداد قوم کی اپنے پاوں پر کھڑے ہونے کی صلاحیت تیزی سے کمزور کر دیتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آزادی کے بعد سے ہی پاکستان سیاسی اور معاشی عدم استحکام سے نمٹنے کے لئے مسلسل جدوجہد کر رہا ہے۔

اپنی ترقیاتی ضروریات اور معاشی نمو کو پورا کرنے کے لیے پاکستان کا زیادہ انحصار غیر ملکی تجارت اور سرمایہ کاری پر نہیں بلکہ غیر ملکی امداد اور دیگر ذرائع سے سرمائے کی آمد مثلاً غیر ملکی ترسیلات زر پر رہا ہے۔ افتخار علی ملک نے کہا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ متضاد اور عدم تسلسل کا شکار میکرو اکنامک پالیسیوں کی وجہ سے ملک کی بڑی آبادی پسماندگی کا شکار ہو چکی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے نائن الیون کے بعد پاکستان دہشت گردی کی لعنت سے بری طرح متاثر ہوا ہے، دہشت گردی نے ملکی معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں اور لوگوں کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وقت کی ضرورت ہے کہ ملکی معاملات چلانے کے ذمہ داران اس سنگین صورتحال سے ملک کو نکالنے کے لئے مخلصانہ کوششیں کریں اور حکومت اپنی ترجیحات کو درست کرے اور موجودہ نامساعد معاشی صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کرے۔

اس موقع پر مومن علی ملک نے کہا کہ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ تجارت نے پوری دنیا میں غربت میں نمایاں کمی لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آزادانہ تجارت سے ہمیشہ غربت میں کمی اور پائیدار اقتصادی ترقی پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک کو موجودہ انتہائی نازک معاشی مشکلات سے نکالنے کے لئے سب سے بہتر اور مناسب حکومتی اقدام یہ ہو گا کہ امداد نہیں بلکہ تجارت اور سرمایہ کاری کو اقتصادی پالیسیوں کی بنیاد بنایا جائے۔