معروف اقتصادی ماہرین کا گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر کی تعیناتی کا خیرمقدم اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ اکنامک منیجرز کیلئے پیشہ وارانہ مہارت، تجربہ اور انٹرنیشنل ایکسپوژر کا حامل ہونا ضروری ہے اور جو بحران کے وقت مالی اور مانیٹری پالیسیوں کو منظم کرنے پر عبور رکھتے ہوں ، اے پی پی سے گفتگو

207
مہنگائی کو مدنظر رکھیں تو حقیقی شرح سود منفی ہے،گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر

اسلام آباد ۔ 9 مئی (اے پی پی) معروف اقتصادی ماہرین نے گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر کی تعیناتی کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ماضی میں اہم عہدوں پر سیاسی تعیناتیوں کے برعکس موجود حکومت نے ملک کو بحرانوں سے نکالنے اور پائیدار اقتصادی ترقی کے راستے پر گامزن کرنے کیلئے صحیح لوگوں کو صحیح عہدوں پر تعینات کیا ہے۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ اکنامک منیجرز کیلئے پیشہ وارانہ مہارت، تجربہ اور انٹرنیشنل ایکسپوژر کا حامل ہونا ضروری ہے اور جو بحران کے وقت مالی اور مانیٹری پالیسیوں کو منظم کرنے پر عبور رکھتے ہوں۔ جمعرات کو ”اے پی پی“ سے گفتگو کرتے ہوئے سابق نگران وزیر خزانہ اور سابق مشیر برائے وزیر خزانہ سلمان شاہ نے کہا کہ ڈاکٹر رضا باقر بہتریں انتخاب ہیں تاہم ان کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ مہم شروع کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر باقر دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں سے ہائی کوالیفائیڈ اور اقتصادی اصلاحاتی پروگرام کے اجراءکیلئے انتہائی موزوں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف میں خدمات سرانجام دینے والے کی پاکستان میں اہم اقتصادی عہدے پر تعیانی کوئی نئی بات نہیں۔ اس سے قبل سابق گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹر محمد یعقوب بھی آئی ایم ایف میں خدمات سرانجام دے چکے تھے جبکہ سابق گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹر شمشاد جو عالمی بینک سے آئی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمیں اقتصادی بحران کا سامنا ہے اور ڈاکٹر باقر اس صورتحال پر قابو پانے کیلئے صحیح شخص ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کی کئی مثالیں موجود ہیں کہ جب بھی ملکوں کو اس قسم کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تو آئی ایم ایف یا دیگر عالمی اداروں سے ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ اقتصادی اصلاحات لانا چاہتے ہوں اور سیاسی تعیناتیوں سے گریز کرنا ہو گا۔ اقتصادی ماہر قیصر بنگالی نے کہا کہ محمد یعقوب، ڈاکٹر شمشاد اور ڈاکٹر عشرت سمیت سٹیٹ بینک کے کئی گورنرز بھی عالمی مالیاتی اداروں میں خدمات سرانجام دے چکے ہیں، اس لئے ڈاکٹر باقر کی تعیناتی پر بھی کوئی سوال نہیں ہونا چاہئے۔ سکول آف سوشل سائنسز اینڈ ہیومنیٹیز نسٹ کے پرنسپل و ڈین ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے کہا کہ ڈاکٹر باقر بہترین اکنامسٹ ہیں تاہم اقتصادی اصلاحات ایک چیلنج ہو گا۔ سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا کہ ڈاکٹر باقر معیشت کو ٹریک پر لانے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔ ملکی معیشت میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے اور اس وقت اس مقصد کے حصول کیلئے ہمیں صحیح شخص مل گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر باقر محب وطن پاکستانی ہیں اور انکے خلاف پروپیگنڈہ مہم بے بنیاد ہے۔ تاجر برادری نے ڈاکتر باقر کی تعیناتی کا خیر مقدم کیا ہے اور کہا کہ سیاسی تعیناتیوں کے بجائے صحیح عہدوں پر صحیح لوگوں کی تعیناتی سے ملک ترقی کے راستے پر گامزن ہو گا۔ صدر فیڈریشن آف چیمبرزآف کامرس و صنعت دارو خان اچکزئی نے کہا کہ آئی ایم ایف میں خدمات سرانجام دینے والے ماہرین پہلے بھی اس عہدوں پر تعینات رہے ہیں۔چیئر مین یونائٹید بزنس گروپ افتخار ملک نے کہا کہ صحیح لوگوں کو صحیح عہدوں پر تعیناتی سے ملکی قتصادی ترقی میں تیزی آئے گی۔ ماہرین نے کہا کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں مرکزی بینک کے گورنرکے عہدے پر تقرری کیلئے متعلقہ مہارت اوربین الاقوامی تجربہ اہمیت کا حامل ہوتاہے، بیشتر ممالک میں اس عہدے پر ایسے پیشہ وارانہ مہارت کے حامل ماہر ین کا تقرر کیا جاتاہے جن کا معروف بین الاقوامی اداروں میں ذمہ داریاں اداکرنے کا تجربہ ہو۔ جون 1948ءسے ہی پاکستان میں ایسے مالیاتی ماہرین کا تقرر کیا جاتا رہا ہے جن کا عالمی مالیاتی اداروں میں کام کرنے کا وسیع تجربہ رہا ہے، اسی رجحان کے پیش نظر حکومت پاکستان نے حال ہی میں ڈاکٹر رضا باقر کی سٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر کے عہدے پر تین سال کے لئے تقرری کی ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ذرائع نے بتایا کہ ڈاکٹر رضا باقر کا بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور عالمی بینک کے ساتھ کام کرنے کا بالترتیب 18 اور 2 سال کا تجربہ رہا ہے۔ وہ اگست 2017ءسے مصر میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آفس کے سینئر ریذیڈنٹ نمائندہ کے طور پر کام کر رہے تھے۔ انہوں نے بلغاریہ اور رومانیہ میں آئی ایم ایف مشن کے چیف ، آئی ایم ایف ڈیٹ پالیسی ڈویژن کے چیف، پیرس کلب کیلئے آئی ایم ایف وفد کے سربراہ ، آئی ایم ایف ایمرجنگ مارکیٹ ڈویژن کے ڈویژن چیف، فلپائن کیلئے آئی ایم ایف ریزیڈنٹ نمائندہ سمیت کئی کلیدی عہدوں پر کام کیا ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ذرائع کے مطابق اس سے قبل ڈاکٹر شمشاد اختر نے 2 جنوری 2006ءکو سٹیٹ بینک کی گورنر کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھالیں۔ وہ اس سے قبل 2004ءسے ایشیائی ترقیاتی بینک کے جنوب مشرقی ایشیائی شعبہ کی ڈائریکٹر جنرل کے طور پر کام کر رہی تھیں۔ وہ عالمی بینک میں مالیاتی مارکیٹس کے تناﺅ و تجزیہ اور زری پالیسی کے تجزیہ کی ذمہ داری بھی سر انجام دے چکی تھیں۔ سید سلیم رضا جنہوں نے 2 جنوری 2009ءکو سٹیٹ بینک کے گورنر کی حیثیت سے ذمہ داریاں سر انجام دینا شروع کیں، ان کا بین الاقوامی بینکنگ میں 36 سال کا تجربہ رہا ہے۔ اسی طرح اشرف محمود وتھرا جنہوں نے 29 اپریل 2014ءسے گورنر سٹیٹ بینک کی گورنر کی ذمہ داریاں سنبھالیں، بھی آئی ایم ایف، ایشیئن کلیئرنگ یونین اور ای سی او ٹریڈ اینڈ ڈویلپمنٹ بینک میں بھی کام کر چکے تھے۔ 1999 سے 2005 تک سٹیٹ بینک کے گورنر رہنے والے ڈاکٹر عشرت حسین کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے آئی ای او کے جائزہ کے لئے تین رکنی پینل میں بھی شامل کیا تھا۔ وہ آئی ایم ایف کے مشرق وسطیٰ کے لئے مشاورتی گروپ کا حصہ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ یو این ڈی پی کے علاقائی ایڈوائزری گروپ اور عالمی بینک کے پریذیڈنٹ ایڈوائزری کونسل اور عالامی اقتصادی فورم کے گلوبل ایڈوائزری کونسل میں بھی ذمہ داریاں سر انجام دے چکے تھے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان کے علاوہ پڑوسی ممالک میں بھی مرکزی بینکوں کے گورنر کے عہدوں پر اسی طرح کے بین الاقوامی تجربے کے حامل ماہرین کا تقرر کیا جاتا رہا ہے۔ سنٹرل بینک بھارت کے 24 ویں گورنر ڈاکٹر ارجت راج پٹیل، جو 4 ستمبر 2016ءسے دسمبر 2018ءتک اپنے عہدے پر کام کرتے رہے، بھی آئی ایم ایف میں ذمہ داریاں سر انجام دے چکے ہیں۔ 1996-97ءمیں وہ ریزور بینک آف انڈیا میں آئی ایم ایف دیپوٹیشن پر آئے۔ انہوں نے ڈیٹ مارکیٹ، بینکنگ کے شعبہ میں اصلاحات، پنشن کے شعبہ میں اصلاحات اور فارن ایکس چینج مارکیٹ کے تجزیے میں نمایاں ذمہ داریاں سر انجام دیں۔ اسی طرح ریزور بینک آف انڈیا کے 23 ویں گورنر ڈاکٹر راگورام راجن نے بھی آئی ایم ایف کے چیف اکانومسٹ اور اسی ادارے کے ریسرچ ڈائریکٹر کے طور پر ذمہ داریاں انجام دیں ہیں۔ ریزور بینک آف انڈیا کے ایک اور گورنر ڈاکٹر سبھارو 1999-2004ءتک عالمی بینک کے اہم اقتصادی ماہرین میں سے ایک تھے، انہوں نے افریقہ اور مشرقی ایشیاءمیں پبلک فنانس کے شعبہ میں بہت کام کیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مالیاتی اور زری پالیسی کا انتظام و انصرام اہمیت کا حامل شعبہ ہوتا ہے، اس مقصد کے لئے ایسے پیشہ ورانہ مہارت کے حامل ماہرین کا تقرر کیا جاتا ہے جنہوں نے بڑے عالمی اداروں میں ذمہ داریاں سر انجام دیں اور انہیں اپنے شعبے میں مہارت حاصل ہو۔ ماہرین نے کہا کہ سٹیٹ بینک کے گورنر کے عہدے پر ڈاکٹر رضا باقر کا تقرر اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ان کے پاس مطلوبہ مہارت اور تجربہ موجود ہے۔