معیشت کو درپیش دیرینہ چیلنجز کے حل کیلئے میثاق معیشت اور جمہوری تسلسل ضروری ہے، رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو بے دخل نہیں کیا جا رہا ، نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا پی ٹی وی کے اینکرز اور وی لاگرز کو پینل انٹرویو

132
Caretaker Prime Minister
Caretaker Prime Minister

اسلام آباد۔9اکتوبر (اے پی پی):نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ معیشت کو درپیش دیرینہ چیلنجز کے حل کیلئے میثاق معیشت اور جمہوری تسلسل ضروری ہے، معاشی استحکام کیلئے برآمدات میں اضافہ اور ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کی ضرورت ہے، ایم ڈی آئی ایم ایف سے ملاقات حوصلہ افزاء رہی ہے، رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو بے دخل نہیں کیا جا رہا ہے، سول اداروں کی استعداد کار میں اضافہ کرکے بہتر اسلوب حکمرانی کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔

پیر کو پی ٹی وی کے اینکرز اور وی لاگرز کو پینل انٹرویو میں وزیراعظم نے کہا کہ نیویارک سے واپسی پر جہاز کی ری فیولنگ کیلئے فرانس میں رکنا پڑا، سوشل میڈیا پر بے بنیاد خبریں پھیلائی جاتی ہیں، تعمیری تنقید کا خیرمقدم کرتے ہیں، ڈیجیٹل میڈیا کے اس دور میں تہمت کا عنصر نمایاں ہو رہا ہے جس سے ہمارے مذہب نے صدیوں پہلے روکا تھا اس کا اب ہم شکار ہو رہے ہیں یہ بڑی بیماری ہے جہاں پر متاثرہ شخص کو وضاحت کا موقع بھی نہیں ملتا، آزادی اظہار رائے کے نام پر غلط خبریں پھیلانا افسوسناک ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ کے حوالے سے پاکستان کا مؤقف واضح ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، ہم اسرائیل کو غاصب ریاست اور فلسطین کو مظلوم سمجھتے ہیں، یہ ظالم اور مظلوم کی جنگ ہے، گذشتہ کچھ دہائیوں سے عالمی سطح پر دو ریاستوں کے تصور کا حل تجویز کیا گیا ہے تاہم بدقسمتی سے اسرائیل مذکورہ حل سے انکاری ہے جس کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں پیچیدگیاں بڑھ رہی ہیں اور اسلامی دنیا میں فلسطین اور کشمیر کی وجہ سے بنیاد پرستی کا عنصر نمایاں ہوتا جا رہا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نگراں وزیراعظم کے طور پر ذمہ داریاں ادا کرنے کے بعد وہ اپنا سیاسی کردار ادا کرتے رہیں گے، اس کیلئے ضروری نہیں کہ میں کسی سیاسی جماعت کا عہدیدار یا کسی پارلیمان کا رکن ہوں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بطور نگراں وزیراعظم ان کا پہلا اجلاس توانائی کے حوالے سے ہوا، اس وقت جون اور جولائی کے 14 روپے فی یونٹ اضافی ڈالنے پڑے، اس پر ہمارے اوپر تنقید بھی ہوئی لیکن یہ عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ معاہدے کا حصہ تھا، ہم نے ان سے بات بھی کی، مجھ سے منسوب ایسی باتیں بھی کی گئیں جو میں نے نہیں کیں، اس حوالے سے میڈیا کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے، جب انرجی کے شعبہ کو باریک بینی سے دیکھا تو اس کے مسائل سے آگاہی ہوئی، بہت مہنگی بجلی پیدا کی جا رہی ہے، بجلی چوری کا سامنا ہے، لائن لاسز سمیت دیگر مسائل سے آگاہی ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ اپنے مختصر دور میں چاہتے ہیں کہ ہم ایک ایسا ماڈل دے کر جائیں کہ آنے والی حکومتیں اس کو لے کر آگے بڑھیں، ہم نے 18 ارب روپے کی بجلی کی وصولیاں کیں، مہنگائی کی بنیادی وجہ بری اور کمزور حکمرانی ہوتی ہے جس کا اثر کمزور اور پسے ہوئے طبقہ پر پڑتا ہے جبکہ اشرافیہ کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے کہ اگر بجلی کی قیمت دگنی بھی کر دیں تو ان پر کوئی اثر نہیں پڑتا، صوبوں کے ذمہ واجبات اور سرکاری اداروں کے ذمہ بقایا جات کی وصولی ہونی چاہئے، ماضی میں انتظامی امور پر توجہ نہ دینے سے مہنگائی، گردشی قرضے اور سمگلنگ جیسے مسائل پیدا ہوئے۔ انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا ہو گا، ان کے لوازمات اور ضروریات پوری کریں گے، الیکشن کمیشن اپنا آئینی کام بھرپور انداز میں کر رہا ہے، انتخابات کی تاریخ کا مینڈیٹ الیکشن کمیشن کے پاس ہے، ہم آئینی طور پر ان کی معاونت کے پابند ہیں۔

انہوں نے کہا کہ معیشت کو درپیش چیلنجز دیرینہ ہیں، ہم ان کے حل کیلئے کوشاں ہیں، میں اپنا ووٹ اس جماعت کو دوں گا جس کے پاس معاشی بحالی کا منصوبہ ہو گا، پاکستان کا بنیادی چیلنج معیشت کا ہے اس کیلئے میثاق معیشت اور جمہوری تسلسل چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے دو صوبے دہشت گردی کا بہت زیادہ شکار ہیں، ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کا قلع قمع کرے، انسداد دہشت گردی میں پاکستان نے نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں، اس نے اس کی بڑی قیمت بھی ادا کی، نان سٹیٹ ایکٹرز کے کنٹرول میں ملک کا کوئی علاقہ نہیں ہے، اس حوالے سے ان کی منصوبہ بندی ناکام بنائی گئی، افغانستان میں نیٹو اور اتحادی افواج کی موجودگی کے باوجود بہت سے علاقے مسلح جتھوں کے کنٹرول میں تھے، ہم پرعزم ہیں کہ ہماری فورسز اپنے عزم سے دہشت گردی کا قلع قمع کریں گی، آخری دہشت گرد کے خاتمہ تک دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اداروں کو فتح کرنے کی جب بھی کوشش کی گئی تو اس میں کامیابی نہیں ہوئی کیونکہ وژن اور سالمیت کا فقدان ہے، ہمیں سول اداروں کو مضبوط بنانا ہو گا، ہمسایہ ممالک کے مقابلہ میں ہمارے دفاعی اخراجات پورے خطے میں کم ہیں، افغان نیشنل آرمی کیلئے امریکہ نے 100 ارب ڈالر خرچ کئے۔ انہوں نے کہا کہ نگراں حکومت آئی پی پیز کو درآمدی کوئلہ کی بجائے مقامی کوئلہ پر منتقل کرنے کیلئے تجاویز مرتب کر رہی ہے، منتخب حکومتوں کو یہ کام کرنا چاہئے تھا، ہم نے اپنی ترجیحات بنائی ہیں، طویل المدتی تجاویز بھی دے رہے ہیں، قانونی مسودے بھی بنا کر جائیں گے، بیرونی قرضے پروڈکٹیو سمت میں لگانے چاہئیں، امریکہ ہم سے زیادہ قرضے لیتا ہے لیکن وہ اسے پیداواری سمت میں لگاتا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم اپنے ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے اور ٹیکس ٹو جی ڈی پی بڑھانے کی طرف جا رہے ہیں، زراعت، وکلا، ڈاکٹر، نجی ہسپتال اور ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانا چاہتے ہیں، اس سے ہماری معاشی صورتحال خود بخود بہتر ہونا شروع ہو جائے گا، آبادی کا صرف 10 فیصد ٹیکس دے رہا ہے۔

افغان مہاجرین کی ان کی وطن واپسی کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم رجسٹرڈ پناہ گزینوں کو بے دخل نہیں کر رہے بلکہ ایسے لوگوں کو نکال رہے ہیں جن کے پاس پاکستان میں رہنے کی کوئی قانونی دستاویز نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے حوالے سے قانون کے مطابق فیصلہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ مینوفیکچرنگ اور گھریلو مصرف کی اشیاء کی ایل سیز پر کوئی پابندی نہیں۔