معیشت کے حوالہ سے چاروں طرف سے مثبت خبریں آ رہی ہیں،مشیر خزانہ ڈاکٹرعبدالحفیظ شیخ کی وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹر شبلی فراز کے ہمراہ حکومت کی مجموعی اقتصادی کارکردگی کے حوالہ سے پریس بریفنگ

155

اسلام آباد۔17نومبر (اے پی پی):وزیراعظم کے مشیربرائے خزانہ ومحصولات ڈاکٹرعبدالحفیظ شیخ نے کہاہے کہ معیشت کے حوالہ سے چاروں طرف سے مثبت خبریں آ رہی ہیں، اگر آنے والے دنوں میں ہم نے اپنے آپ کو کورونا کی دوسری لہر سے محفوظ رکھا تو ہماری کارکردگی مزید بہتر ہو گی،کوشش ہے کہ معاشی استحکام کے تسلسل کو برقرار رکھا جائے، ماضی کے قرضوں کیلئے موجودہ حکومت کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا، یکم جولائی سے 30 اکتوبر تک قرضوں کی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں ہوا، ، چار مہینوں میں حکومت نے ایک ٹکے کا قرضہ نہیں لیا، یہ بڑی کامیابی اور مالیاتی نظم و ضبط کا بین ثبوت ہے، مہنگائی پر قابو پانے کیلئے بھرپورکوششیں جاری ہیں، پاکستان اور آئی ایم ایف کا اچھا تعلق ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ ہم نے جو بھی معاملات طے کئے ہیں وہ بہتر انداز میں چل رہے ہیں۔منگل کو یہاں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز کے ہمراہ حکومت کی مجموعی اقتصادی کارکردگی کے حوالہ سے پریس بریفنگ میں ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے بتایا کہ جب موجودہ حکومت برسر اقتدار آئی تو معیشت بحرانی کیفیت میں تھی جس کی وجہ سے ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا، اس وقت سے معیشت کو مستحکم کرنا ہمارا ہدف تھا، کورونا وائرس کی وبا سے قبل پاکستان معاشی استحکام کی طرف جا رہا تھا، ٹیکس محصولات میں اضافہ ہو رہا تھا، پرائمری بیلنس سرپلس تھا، برآمدات میں اضافہ ہو رہا تھا، کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے معیشت کو دھچکا لگا، ان حالات میں حکومت نے بزنس کمیونٹی کو مراعات دیں اور کمزور طبقات کیلئے تاریخی پیکیج دیا، پاکستان کے اقدامات کو پوری دنیا نے سراہا، حکومت نے شہریوں اور کاروبار کو وبا کے مضر اثرات سے بچانے کیلئے 1240 ارب روپے کا تاریخی پیکیج دیا، بزنس کمیونٹی کے بجلی کے بلوں میں سہولت فراہم کی گئی، ملازمتیں پیدا کرنے کیلئے سستے قرضے دیئے گئے، قرضوں کو موخر کیا گیا، اسی طرح بجلی کے بلوں کی ادائیگی میں سہولت فراہم کی گئی، حکومت نے گندم کی خریداری کا تاریخی پیکیج دیا، ایک کروڑ 50 لاکھ لوگوں کو نقد امداد فراہم کی گئی، پوری دنیا نے دیکھا کہ یہ تمام کام شفاف انداز میں ہوا، ان اقدامات کی وجہ سے پاکستان کورونا وائرس کی پہلی لہر سے بہتر انداز میں باہر نکل آیا۔ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ بیرونی معاشی محاذ پر بھی حکومت نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا، حسابات جاریہ کے خسارہ کو دو سالوں میں 20 ارب ڈالر کی سطح سے کم کرکے تین ارب ڈالر کی سطح پر لایا گیا، اس وقت پرائمری بیلنس 792 ملین ڈالر سرپلس ہے، اندرونی خسارہ پر قابو پانے کیلئے اقدامات کئے گئے، حکومت نے اخراجات میں کمی کی، 30 اکتوبر تک ہمارا پرائمری بیلنس سرپلس رہا، اس کی وجہ سے ہمیں قرض لینے کی ضرورت نہیں ہے، موجودہ حکومت نے ماضی کے قرضوں کی سود کی ادائیگی میں پانچ ہزار ارب روپے واپس کئے ہیں، اگر یہ نہ دینا پڑتے تو ہم اپنے عوام کیلئے بہت کچھ کر سکتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ یکم جولائی سے 30 اکتوبر تک قرضوں کی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں ہوا، جون کے اختتام پر بیرونی قرضہ 36.4 ٹریلین روپے تھا جو اکتوبر کے اختتام پر بھی 36.4 ٹریلین تھا، چار مہینوں میں حکومت نے ایک ٹکے کا قرضہ نہیں لیا، یہ ایک بڑی کامیابی اور مالیاتی نظم و ضبط کا بین ثبوت ہے۔ انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال کے پہلے چار ماہ میں بڑی صنعتوں کی پیداوار میں پانچ فیصد اضافہ ہوا، سیمنٹ کی کھپت 10 ملین ٹن سے بڑھ کر 20 ملین ٹن ہو گئی جس میں سے 13 سے 16 ملین ٹن مقامی کھپت ہے، آٹو موبائل، فارما اور کھاد سازی کی صنعت میں بڑھوتری ریکارڈ کی گئی ہے، ٹیکسٹائل کے شعبہ میں دسمبر تک آرڈرز موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ روپے کی قدر میں استحکام آیا ہے اور اس کی قدر میں اضافہ ہو رہا ہے، سٹیٹ بینک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر 13 ارب ڈالر کی سطح پر پہنچ چکے ہیں، ایف بی آر نے پہلے چار ماہ میں 1340 ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا کیا ہے جو ہدف سے زیادہ ہے، یہ شرح گذشتہ سال کے مقابلہ میں چار سے پانچ فیصد اضافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریفنڈ کی مد میں مالی سال کے پہلے چار ماہ میں 128 ارب روپے واپس کئے گئے ہیں جو گذشتہ سال کے اسی عرصہ کے مقابلہ میں 100 فیصد زیادہ ہیں۔ گذشتہ سال مجموعی طور پر 241 ارب روپے کے ریفنڈز دیئے گئے، حکومت نے سٹیٹ بینک سے کوئی قرضہ نہیں لیا ہے، وزیراعظم کے وژن کے مطابق اخراجات میں نمایاں کمی لائی گئی، دفاعی اخراجات کو منجمد کیا گیا، صدر، وزیراعظم اور کابینہ کے اخراجات میں کمی لائی گئی، ان اقدامات کا بنیادی مقصد پاکستان کے لوگوں کو فائدہ پہنچانا ہے۔ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ حکومت ملک میں روزگار کے مواقع بڑھانے کیلئے جامع انداز میں کام کر رہی ہے، روزگار کے مواقع بڑھانے کیلئے تعمیرات کا ایک منفرد اور زبردست پیکیج دیا گیا ہے جس کے نتیجہ میں اس شعبہ میں سرگرمی دیکھنے میں آ رہی ہے، حکومت کامیاب جوان پروگرام کے تحت 100 ارب روپے دینے کیلئے تیار ہے، سرکاری شعبہ کے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں اضافہ کیا گیا ہے اور نئے منصوبے شروع کئے جا رہے ہیں، پی ایس ڈی پی میں پہلی مرتبہ نظر انداز علاقوں کو ترجیح دی جا رہی ہے، حکومت کے ان اقدامات اور پالیسیوں کا محور اندرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہے، اس مقصد کیلئے بزنس کمیونٹی کو بجلی اور گیس کی مد میں رعایت دی جا رہی ہے، ان اقدامات کی وجہ سے اقتصادی سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں جس سے روزگار کے مواقع میں مزید اضافہ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری پاکستانی معیشت پر اعتماد کر رہی ہے، پہلے چار مہینوں میں 733 ملین ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری ملک میں آئی ہے جو گذشتہ سال کے مقابلہ میں 10 فیصد زیادہ ہے، عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور ترقیاتی شراکت داروں کے ساتھ منصوبوں میں تیزی لائی جا رہی ہے، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کیلئے خصوصی پیکیج دیا گیا ہے تاکہ ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی اقدامات کی وجہ سے معیشت میں تیزی آ رہی ہے، کمپنیوں کے منافع میں اضافہ ہو رہا ہے، سو بڑی کمپنیوں کے منافع میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے، بینکنگ سیکٹر کے منافع میں 56 فیصد اضافہ ہوا ہے، پاکستان کی سٹاک مارکیٹ ایشیاءمیں تیزی سے ترقی کرتی ہوئی مارکیٹ ہے، یہ اس بات کی علامت ہے کہ دنیا سے لوگ پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے آ رہے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ حکومت مہنگائی پر قابو پانے کیلئے بھرپور کوششیں کر رہی ہے، گذشتہ سال گندم کی 20 سے 22 لاکھ ٹن کم پیداوار ہوئی، اس تناظر میں حکومت نے 30 لاکھ ٹن گندم کی درآمد کیلئے اقدامات کئے تاکہ لوگوں کو گندم اور آٹا سستی قیمت پر ملے، درآمدی گندم کے تمام کھیپ فروری تک پہنچ جائے گی، ملک میں گندم کی کوئی قلت نہیں ہے، گندم کی ریلیز کی قیمت 1475 روپے ہے۔ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کیلئے 50 ارب روپے کا پیکیج دیا گیا ہے، سہولت بازاروں کیلئے بھی آٹے کی قیمت کو کم رکھا گیا ہے، شہریوں کو سستے آٹے کی خریداری کیلئے یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن اور سہولت بازاروں سے استفادہ کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ مہنگائی میں کمی کی عکاسی پاکستان بیورو برائے شماریات کے اعداد و شمار سے بھی ہو رہی ہے، اس وقت حکومت 40 ہزار ٹن گندم روزانہ ریلیز کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاشرہ کے کمزور اور نادار طبقات کی سہولت کیلئے حکومت نے احساس پروگرام کے بجٹ کو 100 ارب روپے سے بڑھا کر 193 ارب روپے کر دیا ہے، اس پروگرام سے ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد کو نقد معاونت فراہم کی گئی، پہلے 45 لاکھ لوگوں کو اس پروگرام سے مسلسل اور مستقل فائدہ پہنچ رہا تھا، یہ تعداد اب 70 لاکھ تک بڑھائی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا کے ضم شدہ اضلاع کیلئے حکومت نے 152 ارب روپے کا سالانہ پروگرام رکھا ہے، حکومت بجلی کے بلوں میں بھی اضافہ نہیں کر رہی بلکہ اضافی بجلی کی قیمت میں کمی لائی جا رہی ہے، اس وقت حکومت بجلی کے 72 فیصد، گیس کے 92 فیصد اور ٹیوب ویل 100 فیصد صارفین کو زر اعانت فراہم کر رہی ہے، ان تمام اقدامات کا مقصد لوگوں کی زندگی کو بہتر بنانا ہے، حکومت کوشش کر رہی ہے کہ معاشی استحکام کے تسلسل کو برقرار رکھا جائے، معیشت کے حوالہ سے چاروں طرف سے مثبت خبریں آ رہی ہیں، اگر آنے والے دنوں میں ہم نے اپنے آپ کو کورونا کی دوسری لہر سے محفوظ رکھا تو ہماری کارکردگی مزید بہتر ہو گی۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ماضی کے قرضوں کیلئے موجودہ حکومت کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا لیکن چونکہ یہ حکومتی قرضے ہوتے ہیں اس لئے اس کی ادائیگی ضروری ہوتی ہے۔ آئی ایم ایف کے پروگرام سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کا اچھا تعلق ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ ہم نے جو بھی معاملات طے کئے ہیں وہ بہتر انداز میں چل رہے ہیں، آئی ایم ایف کے پروگرام کے تحت صاحب حیثیت لوگوں سے ٹیکس اکٹھا کرنا، حکومتی اخراجات کو کم کرنا اور قرضوں کی اچھے طریقہ سے ادائیگی کرنا ہے، یہ تینوں چیزیں پاکستان کے اپنے مفاد میں ہیں، آنے والے ہفتوں میں آئی ایم ایف کا مشن پاکستان آ رہا ہے جس کے بعد یہ پروگرام ٹریک پر ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کوشش کر رہی ہے کہ کورونا وائرس کے دنوں میں معیشت میں سکڑائو نہ ہو، آئی ایم ایف نے کورونا وائرس کی وبا کے عرصہ میں پاکستان کو 1.4 ارب ڈالر کا اضافی قرضہ دیا، پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان بہتر ہم آہنگی ہے، آنے والے دنوں میں بجلی اور ٹیکسوں کے نظام میں بہتری اہم امور ہوں گے، وزیراعظم عمران خان بجلی کے شعبہ میں اصلاحات پر خود کام کر رہے ہیں، حکومت ماضی میں بجلی اور دیگر شعبوں میں ہونے والے معاہدوں کو بہتر بنا رہی ہے، ڈسٹری بیوشن اور پیداواری کمپنیوں کی کارکردگی بھی بڑھائی جا رہی ہے۔