اسلام آباد۔31جولائی (اے پی پی):بھارت کی جانب سے 5 اگست 2019 کو ریاست میں آبادیاتی تبدیلیاں لانے کے مذموم عزائم کے ساتھ جموں و کشمیر کے متنازعہ علاقے کی قانونی حیثیت کو تبدیل کرنے کی کوشش نے پوری وادی کو دنیا کی سب سے بڑی انسانی جیل میں تبدیل کر دیا ہے جہاں تمام بنیادی حقوق سلب کرنے کے ساتھ شہریوں کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیا گیا۔
بھارتی پارلیمنٹ کی نام نہاد قرارداد کے ذریعہ بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کے تحت علاقے کو دی گئی خصوصی حیثیت اور خودمختاری کو منسوخ کیا گیا ۔آرٹیکلز کی جان بوجھ کرغیر قانونی تنسیخ نے علاقے کے مقامی لوگوں کے لیے پریشانی میں اضافہ کردیا ۔ بھارتی حکومت نے بے گناہ شہریوں کے خلاف جارحانہ اقدامات شروع کرد یئے جس نے نہ صرف انہیں زندگی کی بنیادی سہولیات تک رسائی سے محروم کر دیا ہے بلکہ انہیں قابض افواج کے ہاتھوں بدترین ظلم و بربریت جن میں طویل کرفیو سے ماورائے عدالت قتل، عصمت دری ، گرفتاریاں، بدسلوکی اور دوران حراست تشدد کا سامنا کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔آئینی لحاظ سے غیر منصفانہ سلوک کے علاوہ فورسز نے مقامی بغاوت کو کچلنے کے لیے بھی ہر ممکن کوشش کی ہے جس کےلئے دنیا کے سب سے بلند ترین ملٹری زون میں مواصلاتی لائنیں منقطع کر دی گئیں، نقل و حرکت کومحدود کرنے کے ساتھ معلومات تک رسائی سے انکار کیا گیا ۔
سیاسی قیادت کا یا تو ماورئے عدالت قتل کیا گیا یا جعلی مقدمات میں گرفتار کیا گیا ۔مسئلہ کشمیر کے ماہر اور رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد کے اسسٹنٹ پروفیسر اویس بن وصی نے کشمیر پر حالیہ دستاویزی علمی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے اے پی پی کو بتایا کہ یہ زمینی حقائق ہیں کہ بھارتی غیر قانونی زیر تسلط مقبوضہ کشمیر میں قابض افواج کی بڑے پیمانے پر موجودگی کی وجہ سے سب سے بڑا ملٹر ی زون بن گیا ہے جہاں انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ آرٹیکلز کی منسوخی بھارتی آئین، اقوام متحدہ کی قراردادوں، جنیوا کنونشن، کشمیری عوام کی مرضی اور بین الاقوامی قوانین کے منافی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارتی آئین کہتا ہے کہ آرٹیکل 370 کو یکطرفہ طور پر منسوخ نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ عالمی اداروں، انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں اور اقوام متحدہ کو بھارتی غیر قانونی زیر تسلط مقبوضہ کشمیر کی خود مختار حیثیت کی بحالی کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔کشمیریوں نے 1947 کے بعد سے بہت زیادہ مصائب جھیلے ہیں اور اب بھی قابض افواج کے ہاتھوں ان کے ظالمانہ قوانین اور جابرانہ ہتھکنڈوں کا سامنا کر رہے ہیں ۔وادی میں انسانوں کی طرف سے پیدا کردہ بحران نے ہزاروں لوگوں کےلئے ان کی مرضی کو دبانے ،
ان پر جبر کرنے اور ان سے حق خود ارادیت کے بنیادی حقوق کو چھیننے کی غرض سے انھیں محکوم بنانے کے لیے زندہ جہنم کے سوا کچھ نہیں بنایا ہے ۔ اسلام آباد میں مقیم ورکنگ جرنلسٹ اور ماہر تعلیم صوفیہ صدیق نے خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ مقبوضہ کشمیر میں دس لاکھ سے زائد فورسز کی تعیناتی اس حقیقت کو ظاہر کرتی ہے کہ علاقہ مکینوں کے لیے سب سے بڑا انسانی جیل بنا ہوا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ شدید کرفیو اور شٹر ڈاؤن ہڑتالوں کی وجہ سے لوگوں کے معمولات زندگی اور کاروبار تباہ ہو گئے۔رواں ماہ 5 اگست کو بھارت کے غیر قانونی طور پر زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بھارت کے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات کے تین سال مکمل ہونے پر یوم استحصال منایا جارہا ہے۔گزشتہ تین سالوں کے دوران نریندر مودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت نے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ اویس بن وصی نے کہا کہ بھارتی حکومت کی جانب سے متنازعہ سرزمین پر بین الاقوامی معاہدوں کی دھوکہ دہی اور کھلم کھلا خلاف ورزی پر عالمی برادریوں کو حساس ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کشمیر کی خود مختار حیثیت اور عوام کے حقوق کی بحالی کے لیے مسئلہ کشمیر پر اپنی فعال حکمت عملی اپنانی چاہئے