اسلام آباد۔25اکتوبر (اے پی پی):مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی میں حالیہ دنوں میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے، ماہ رواں کے دوسرے ہفتے میں بھارتی قابض افواج نے مختلف مقامات پر چھاپوں کے دوران ایک ہزار سے زائد کشمیریوں کو گرفتار کرلیا۔
پیر کو میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی فورسز نے ان افراد کو فرضی اور من گھڑت الزامات کے تحت گرفتار کیا ہے۔ امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے بھارتی فوج کی اس کارروائی کو ایک بڑاکریک ڈائون قراردیا ہے جو بعض کشمیریوں کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد شروع کیا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ ٹارگٹ کلنگ بھارتی خفیہ اداروں نے جدوجہد آزادی کو بدنام کرنے کے لئے کی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں نہتے شہریوں کی گرفتاریوں، تشدد اور اغوا کے حالیہ واقعات ماضی کے واقعات کا تسلسل ہے جو کشمیریوں کو طویل عرصے تک یاد رہیں گے۔ حریت کانفرنس نے ان ہلاکتوں کو بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی کارروائی قرار دیتے ہوئے ان کی اقوام متحدہ سے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے تاہم اس طرح کے واقعات کی کبھی تحقیقات نہیں کی گئی کیونکہ اس کے نتیجے میں بھارت کی قابض فوج بے نقاب ہوگی۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے واقعات حالیہ دنوں میں کئی جعلی مقابلوں سے ثابت ہوتے ہیں جن میں شوپیاں اور سری نگر کے واقعات بھی شامل ہیں۔ پاکستان نے بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں ان فرضی مقابلوں کے متعلق اقوام متحدہ کو گزشتہ دنوں ایک ڈوزیئر پیش کیا تھا جس میں ان مقابلوں کی بھارتی منصوبہ بندی کو بے نقاب کیا گیا تھا۔
بھارتی قابض افواج مقبوضہ علاقہ میں بے گناہ افراد کو نشانہ بناکر انہیں عسکریت پسند قرار دیتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں شہریوں کے اغواءاور انہیں فرضی مقابلوں میں شہید کرنے کے بعد بھارتی قابض افواج کو کسی عدالتی کارروائی کا کوئی ڈر نہیں کیونکہ کالے قوانین کے تحت انہیں مکمل استثنیٰ حاصل ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں غیر قانونی سرگرمیوں کی (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) اور پبلک سیفٹی ایکٹ جیسے سخت قوانین کی موجودگی میں کسی بھی شخص کو انصاف تک رسائی دیئے بغیر سلاخوں کے پیچھے ڈالا جاسکتا ہے۔
انسانی حقوق کی پامالیوں اور بھارتی حکومت کے تعصب کی وجہ سے کشمیریوں کا بھارتی عدالتوں پر اعتماد ختم ہوچکا ہے۔ بھارتی سکیورٹی حکام کے مطابق کشمیری نوجوانوں کی گرفتاری کا مقصد انہیں اور ان کے اہل خانہ کو اذیت دینا اور ان کی آزادی کی خواہش کو ختم کرنے کی کوشش ہے۔
روزنامہ ”کشمیر آبزرور“ نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت 22 کشمیری نظربندوں کو مقبوضہ کشمیر سے آگرہ شہر کی ہائی سکیورٹی جیل میں منتقل کردیا گیا ہے۔ کشمیری نظربندوں کو ان کے اہل خانہ سے دور رکھ کر ان کے ساتھ ہر قسم کا رابطہ ناممکن بنادیا گیا ہے۔
حریت کانفرنس کے رہنما مشتاق گیلانی نے ”اے پی پی“ کو بتایا کہ یہ ایک مجرمانہ رویہ ہے اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس صورتحال کا نوٹس لینا چاہیے۔ بھارتی قابض حکام نے حالیہ عرصہ کے دوران اساتذہ، صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو گرفتار کیا ہے۔ بھارتی اخبار ”ٹائمز آف انڈیا“ نے10 اکتوبر کواپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا کہ بھارت کی قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) نے مقبوضہ کشمیر کے40 اساتذہ کو ٹارگٹ کلنگ کے سلسلے میں طلب کیا۔
ایک کشمیری نوجوان نے اے ایف پی کو بتایا کہ اسے 30 دیگر نوجوانوں کے ساتھ فوجی طیارے میں اپنے گھر سے سینکڑوں میل کے فاصلے پر بھارت کی جیل پہنچایا گیا جہاں ان کے ساتھ بدسلوکی گئی اور انہیں وحشیانہ سلوک کا نشانہ بنایا گیا۔ مقبوضہ کشمیر میں صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو بھی بھارتی جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بے نقاب کرنے پر ریاستی تشدد کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
الجزیرہ نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں صحافیوں نے طویل عرصے سے زبردست دبائو میں کام کیا ہے اور ماضی میں انھیں نشانہ بھی بنایا گیا ہے۔ 22 اکتوبر کو مقبوضہ کشمیر سے موصولہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ دو ہفتوں کے دوران مقبوضہ علاقہ میں گھروں پر چھاپوں کے دوران سات صحافیوں کو گرفتار کیا گیا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ پولیس نے چار صحافیوں کے گھروں پر چھاپے مارے، انہیں تھانے طلب کیا گیا جہاں ان سے پوچھ گچھ کی گئی جبکہ بھارتی فوج نے چند روز قبل انسانی حقوق کے ایک سرگرم کارکن محمد احسن اونتو کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔