ملتان۔ 10 فروری (اے پی پی):برصغیر میں شیر شاہ سوری کی آمد سے مسافروں کی رہائش و طعام کی سہولیات کےلئے شروع ہونے والا "سرائے کلچر” اگرچہ زوال پزیر ہے تاہم ملتان سٹی ریلوے اسٹیشن پر موجود چھ تاریخی سرائے میں سے صرف خدا بخش سرائے اب بھی فعال ہے، جہاں ملک بھر سے مسافر قیام کرتے ہیں۔ ماضی میں ریلوے اسٹیشن کے باہر کی گلیاں، چائے خانوں، مقامی ہوٹلوں، تندوروں اور مشہور سوہن حلوہ کی دکانوں سے آباد تھیں۔ چھ سرائے مسافروں کو آرام کی سہولت فراہم کرتی تھیں، جن میں سے خدا بخش سرائے خاص اہمیت کی حامل تھی، جہاں سندھ سمیت دیگر علاقوں سے زائرین قیام کرتے اور پھر ملتان کے تاریخی مزارات کا رخ کرتے۔
75 سالہ عبدالغفور، جو اس سنہرے دور کے گواہ ہیں، نے اے پی پی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے والد مسافروں کو قیام کی دعوت دیتے تھے۔ ان کے مطابق، دو سرائے ہندو برادری کی تھیں، جبکہ چار مسلمان سرائے تھیں جن میں دلاور شاہ، خدا بخش، شریف کشمیری، اور ملکو والی سرائے شامل تھیں۔ ان سراؤں میں تاجر، زائرین اور مسافر قیام کرتے، جس سے شہر کی ثقافتی اور تجارتی سرگرمیاں عروج پر تھیں۔وسیب ایکسپلورر عامر بشیر کے مطابق، سرائے کلچر برصغیر میں شیر شاہ سوری کے دور میں متعارف ہوا اور وقت کے ساتھ ساتھ تجارتی بنیادوں پر کام کرنے لگا۔ خدا بخش سرائے کے متعلق انہوں نے بتایا کہ اس کا شاندار داخلی دروازہ آج بھی موجود ہے، جبکہ اندر ایک قدیم مسجد بدستور عبادت کے لئےاستعمال ہوتی ہے۔ سرائے کے اندر خدا بخش کا نام، پیدائش اور وفات کا سال درج ہے۔
ایک محراب بھی موجود ہے، جو تاریخی حیثیت کا عکاس ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ سرائے کے بڑے لکڑی کے دروازے آج بھی جوں کے توں ہیں، جن کے پیچھے کبھی مسافروں کی آمدورفت کا ریکارڈ رکھنے کے لئے دفاتر ہوا کرتے تھے۔ ان دفاتر کے بعد ایک وسیع صحن آتا ہے، جس کے گرد برآمدے والے کمرے بنے ہوئے ہیں، جہاں مسافر قیام کرتے تھے۔ سرائے کی کھلی اور ہوادار عمارت آج بھی اپنی خوبصورتی کی جھلک دکھاتی ہے، مگر وقت نے اس پر اپنے نقوش چھوڑ دیے ہیں۔محمد اصغر،مینیجر خدا بخش سرائے نے بتایا کہ 1990 تک یہاں 250 افراد قیام کرتے تھے، مگر اب صرف 20 افراد کے قیام کی گنجائش باقی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک ماہ کے قیام کا کرایہ 10,000 روپے مقرر ہے۔ ماضی میں مہدی حسن، غلام علی، ریشماں سمیت کئی مشہور گلوکار بھی یہاں قیام کر چکے ہیں۔ تاہم، سٹی ریلوے اسٹیشن کی معطلی کے بعد سرائے کو مسافروں کی شدید کمی کا سامنا ہے۔65 سالہ محمد رزاق، جو ایک زمانے میں ریلوے اسٹیشن پر فالودہ اور سوہن حلوہ فروخت کرتے تھے، نے ماضی کے پررونق مناظر کو یاد کرتے ہوئے غنی مال پوری والا اور چاچا رحیما کی کریانہ دکان کا ذکر کیا، جہاں سرائے کے مہمان اپنی ضروریات پوری کرتے تھے۔خدا بخش کے وارثین اب بھی سرائے میں رہائش پذیر ہیں۔بس اڈوں یا سرکاری ہسپتال کے آس پاس مریضوں کے لواحقین کےلئے اکا دکا سرائے نظر آجاتے ہیں ،لیکن مجموعی طور پر بڑے بڑے اور معروف سرائے اب ختم ہو گئے۔مسافر مہنگی رہائش کےلئے ہوٹلوں کا رخ کرنے کی بجائے بنچوں پر ہی رات بسر کر لیتے ہیں
Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=558414