ملکی معیشت کو درپیشن چیلنجوں کے تناظرمیں میثاق معیشت وقت کی ضرورت ہے، اقتصادی ماہرین کا سیمینار سے خطاب

98

اسلام آباد۔11جنوری (اے پی پی):معروف اقتصادی ماہرین نے کہاہے کہ ملکی معیشت کو درپیش چیلنجوں کے تناظرمیں میثاق معیشت وقت کی ضرورت ہے، ایس آئی ایف سی کے پلیٹ فارم سے سمگلنگ اورڈالروں کی ذخیرہ اندوزی کے خاتمہ کیلئے اٹھائے گئے انتظامی اقدامات کاسلسلہ جاری رکھنا چاہئے، نئی حکومت کو توانائی ،سول سروس میں اصلاحات سمیت آئی ٹی کے شعبہ پراپنی توجہ مرکوز کرنی چاہئے، یونیورسٹیوں اورپیشہ ورانہ اداروں کوصنعتوں کے ساتھ مربوط بنانا ہوگا۔ان خیالات کا اظہاراقتصادی ماہرین اوراقتصادی سرگرمیوں کی کوریج کرنے والے صحافیوں نے پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے زیراہتمام ”انتخابات 2024سیاسی جماعتوں کا اقتصادی اصلاحات کا ایجنڈا“ کے موضوع پرمنعقدہ سیمینارسے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

نگراں وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات مرتضیٰ سولنگی اس موقع پرمہمان خصوصی تھے۔ سیکرٹری اطلاعات شاہیرہ شاہد اورپرنسپل انفارمیشن آفیسرطارق محمود سمیت وزارت اطلاعات کے سینئر افسران بھی اس موقع پرموجودتھے۔ سیمینارمیں معاشرے کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے شرکت کی۔سیمینارکے تحت اقتصادی نقطہ نظرکے موضوع پرمنعقدہ مذاکرے سے خطاب کرتے ہوئے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی ماہرمعاشیات ڈاکٹرنورفاطمہ نے کہاکہ انتخابات کے بعد بننے والی حکومت کیلئے معیشت ایک اہم چیلنج ہے، ماضی میں سیاسی جماعتوں نے اپنے منشورمیں ویژن تودئیے تھے مگرانہیں عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکا، سیاسی جماعتوں کواس بات کاادراک ہونا چاہئے کہ عام آدمی کیا چاہتاہے، افراط زر پرقابو پانا، نجی شعبہ کی ترقی، گورننس میں بہتری اورسکولوں سے باہر رہنے والے طلباء کی سکولوں میں واپسی سیاسی جماعتوں کے منشورکی بنیادہونا چاہئے۔

ایس ڈی پی آئی کے ماہر معاشیات ڈاکٹرخالد ولید نے کہاکہ اقتصادیات، معیشت، توانائی اورماحولیات 3ایسے بنیادی امور ہیں جن پرتوجہ دینے کی ضرورت ہے، بے روزگاری، مالی اورتجارتی خسارہ میں اضافہ ہورہاہے، اگرچہ ٹیکس ریونیومیں اضافہ ہو رہا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ آبادی اور اخراجات بھی بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ توانائی اور ماحولیات نئی حکومت کیلئے اہم شعبہ جات ہیں، توانائی کے شعبہ میں اصلاحات ضروری ہے، سیاسی جماعتوں کوواضح طور پر بتانا چاہئے کہ وہ طویل المعیاد پالیسیاں اورفیصلے کس طرح کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ ملکی جی ڈی پی میں زراعت کاحصہ 20 فیصد جبکہ خدمات کاحصہ 60 فیصدکے قریب ہے جبکہ اس کے برعکس زیادہ ملازمتیں اورروزگارزراعت کا شعبہ فراہم کررہاہے، اس صورتحال کے تناظرمیں زراعت کے شعبہ کوصنعت کادرجہ دینا ہوگا،جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کرنا ہوگا، اس کے ساتھ ساتھ غیررسمی معیشت کو رسمی ودستاویزی بنانے کیلئے پالیسی سازی پرتوجہ دینا ہوگی۔

انہوں نے کہاکہ 60 فیصد نوجوان آبادی کوآئی ٹی اوردیگرجدید ٹیکنالوجیز اورصنعتوں میں مہارت کی فراہمی وقت کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کی لیبرفورس کو نئے دورکے تقاضوں کے مطابق مہارت کی فراہمی ضروری ہے۔ماہرمعاشیات ڈاکٹرشجاعت فاروق نے کہاکہ اصلاحات، معیشت، قرضوں کی پائیداریت بیشتر سیاسی جماعتوں کے منشورمیں شامل نہیں ہے، ہمیں اپنی یونیورسٹیوں اورپیشہ وارانہ اداروں کوصنعتوں کے ساتھ مربوط بنانا ہوگا۔انہوں نے کہاکہ بی آئی ایس پی کا بجٹ 400 ارب روپے سے زیادہ ہے مگراس سے مواقع پیدا نہیں ہو رہے ہیں، اسی طرح صحت سہولت پروگرام کیلئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی۔انہوں نے کہا کہ میثاق معیشت، سول سروس میں اصلاحات، سبسڈیز کے خاتمہ اور موثر گورننس پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔

پاکستان کومعاشی مسائل کے گرداب سے نکالنے کیلئے مجموعی قومی پیداوارمیں سالانہ بنیادوں پر7 سے لےکر 8 فیصدتک نمو کو یقینی بنانا ہوگا۔ایس ڈی پی آئی کے ماہراقتصادیات ڈاکٹرعابدقیوم سلہری نے مذاکرے میں اپنے خیالات کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ انتخابات کے بعد بننے والی حکومت کوآئی ایم ایف کے پاس جانا ہوگا، پاکستان کوآئی ایم ایف کے ساتھ ثابت قدمی سے پروگرام مکمل کرنا ہوگا، نئی حکومت کیلئے ضروری ہے کہ وہ آئی ایم ایف کا دوسرا جائزہ مکمل کرے۔ انہوں نے کہاکہ آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام سے ہمارے مسائل حل نہیں ہوں گے، اس وقت ایس آئی ایف سی کے پلیٹ فارم سے ڈالر اورسمگلنگ کے خاتمہ کیلئے جو اقدامات اٹھائے گئے ہیں اور جن کے اچھے نتائج سامنے آئے ہیں، ان انتظامی اقدامات کاسلسلہ جاری رکھنا ہوگا۔

انہوں نے کہاکہ قومی اقتصادی سلامتی کونسل بننا چاہئے، نئی حکومت کو ایس آئی ایف سی میں اپوزیشن لیڈرکوبھی شامل کرنا چاہئے تاکہ سب مل کرفیصلوں کی ملکیت میں شامل ہوں۔ سیمینارکے تحت ”میڈیا کانقطہ نظر“ کے موضوع پرمنعقدہ مذاکرے میں معروف صحافی شہبازرانا نے کہاکہ پاکستان کو ہرسال 30 ارب ڈالرکاقرضہ درکارہوتاہے، بجٹ کاخسارہ 8 ہزار ارب کے قریب ہے، غربت کی شرح 40 فیصد ہے، بے روزگاری 8 سے لیکر10 فیصد کی شرح سے ہے، جی ڈی پی کے تناسب سے قرضوں کاتناسب 75 فیصد ہے جو50 فیصدہونا چاہئے، یہ سارے ہماری معیشت کے حقائق ہیں، دیکھنا ہے کہ سیاسی جماعتیں ان حقائق سے کس طرح نبردآزما ہوتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ بیشترسیاسی جماعتوں کے منشورمیں وعدے توکئے جاتے ہیں مگران پرعملدرآمد ممکن نہیں ہوتا۔

صحافی مہتاب حیدرنے کہاکہ نئی بننے والی حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانا ہوگا اوراس بات کے بھی امکانات ہیں کہ پاکستان کے قرضے ری سٹرکچر کرنے کی شرط عائد کی جائے۔ انہوں نے کہاکہ توانائی اورسول سروس میں اصلاحات ضروری ہے،سینئرصحافی حافظ طاہرخلیل نے مذاکرے میں بتایا کہ پارلیمان میں سیاسی جماعتیں کمزورشراکت دارہوتی ہے جس سے پارلیمان بھی کمزورہوجاتی ہے،بطورصحافی ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم پارلیمان کی مضبوطی کیلئے اپناکردار اداکرے۔

انہوں نے کہاکہ توانائی، غذائی سلامتی، اورتعلیمی شعبہ کے مسائل پرنئی حکومت کواپنی توجہ مرکوزکرنا ہوگی۔انہوں نے کہاکہ انفارمیشن، ڈس انفارمیشن اورفیک نیوزمیں فرق الیکشن کے حوالہ سے ایک اہم چیلنج کی حیثیت رکھتاہے۔سینئرصحافی حنیف خالد نے کہاکہ معیشت کودرپیش چیلنجوں کے تناظرمیں میثاق معیشت وقت کی ضرورت ہے۔