نیویارک۔15جون (اے پی پی):اقوام متحدہ نے انکشاف کیا ہے کہ میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد ملک میں 600 کے قریب مسلح جتھے تشکیل پائے ہیں اور روہنگیا مہاجرین کو ان میں شمولیت پر مجبور کیا جا رہا ہے۔اقوام متحدہ کی نمائندہ خصوصی برائے میانمار نوئلین ہیزر نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بریفنگ میں کہا ہے کہ یکم فروری سن 2021 کی بغاوت کے بعد ملکی نفوس کا ایک چوتھائی یعنی 15 لاکھ افراد انسانی امداد کے محتاج ہیں۔
میانمار کی فوج کی جانب سے تشدد اور غیر متناسب طاقت کا استعمال جاری رکھنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، ہیزر نے کہا کہ بغاوت کے بعد سے اب تک 14 ہزار افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور درجنوں افراد حراست کے دوران اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
ہئیزر نے بتایا کہ اندرونِ ملک بے گھر ہونے والوں کی تعداد 10 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے اور 78 لاکھ بچے تعلیم کے حصول سے محروم کر دیے گئے ہیں۔اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ملک میں فوج کے خلاف مزاحمت کرنے والے تقریباً 600 مسلح گروہ موجود ہیں، ہیزر نے کہا کہ ایک لاکھ 40 ہزار سے زائد روہنگیا مہاجرین، خاص طور پر نوجوانوں کو جو بے گھر ہو کر کیمپوں میں مقیم ہیں، کو مسلح گروہوں نے ہدف بناتے ہوئے مسلح گروہوں میں جبراً شا مل کیا ہے۔
نولین ہائزر نے کہا کہ جب سے انہوں نے چھ ماہ قبل ملازمت سنبھالی ہے، میانمار مسلسل گہرے اور وسیع تنازعات کی طرف جا رہا ہے۔تقریباً ایک ملین بنیادی طور پر مسلمان روہنگیا پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں پناہ گزینوں کے کیمپوں میں رہتے ہیں، اور لاکھوں دیگر خطے میں بکھرے ہوئے ہیں اور پچھلے پانچ سالوں میں غربت میں رہنے والے لوگوں کی تعداد دوگنی ہو کر نصف آبادی کو گھیرے میں لے چکی ہے،
خصوصی ایلچی نے کہا کہ 14.4 ملین افراد، یا میانمار کی پوری آبادی کے ایک چوتھائی کو فوری طور پر انسانی امداد کی ضرورت ہے،اقوام متحدہ کے سینیئر اہلکار نے کہا کہ برمی فوج نے طاقت کا غیر متناسب استعمال جاری رکھا ہوا ہے، شہریوں پر اپنے حملے تیز کر دیے ہیں اور فضائی بمباری کا استعمال کرتے ہوئے مزاحمتی قوتوں کے خلاف کارروائیوں میں اضافہ کیا ہے۔