ملتان۔ 27 اپریل (اے پی پی):زرعی یونیورسٹی ملتان کے ماہر حشرات الارض اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر مدثر علی نے کہا ہے کہ زرعی یونیورسٹی شہد کی مکھیوں کے کاروبار کے فروغ میں اہم کردار ادا کر رہی ہے جہاں مکھی پال حضرات کو ماہرین کے ذریعے تحقیق ،ترتیب اور عملی مظاہروں کی تعلیم دی جاتی ہے ۔
ایم این ایس زرعی یونیورسٹی ملتان کے ماہر حشرات الارض اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر مدثر علی نے اے پی پی سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ نواز شریف زرعی یونیورسٹی شہد کی صنعت کے فروغ کےلئے جدید تکنیک پر مبنی کام کر رہی ہے۔ یونیورسٹی میں ہر سال 100 سے زائد طلباء وطالبات اور کسانوں کو شہد کی مکھیاں پالنے کی تربیت دی جاتی ہے ۔
یونیورسٹی نے کچھ عرصہ قبل شہد کی پیداوار ،تحفظ اور بیماریوں کے کنٹرول کے لیے علیشبہ ہنی اور ہنی ورلڈ کے نام سے دو کمپنیاں بھی رجسٹرڈ کروائی ہیں، جن کا مقصد ملک اور اس کے باہر شہد کے کاروبار کو وسعت دینا ہے۔انہوں نے بتایا کہ یہ کاروبار بہت منافع بخش ہے۔ ایک چھتہ سالانہ 20 سے 25 کلو گرام شہد پیدا کرتا ہے جس سے 15 ہزار سے 25 ہزار تک منافع حاصل کیا جا سکتا ہے۔
ماہرین صحت کے مطابق 21 گرام شہد یا ایک چمچ میں 64 کیلوریز موجود ہوتے ہیں۔ اس میں کیلشیم، میگنیز، میگنیشیم فاسفورس ،وٹامن زنک اور پوٹاشیم کے غذائی اجزاء شامل ہوتے ہیں جو انسانی صحت کے لیے نہایت مفید ہیں ۔ ڈاکٹر مدثر نے کہا کہ شہد بہترین قدرتی غذا ہے ۔اس میں موجود اینٹی بیکٹیریل خصوصیات زخموں اور گلے کی سوزش سمیت قوت مدافعت کو بڑھاتے ہیں ۔
دل اور جلد پر مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ قدرتی شہد جنگلات اور پہاڑوں سے حاصل کیا جاتا ہے جس میں وٹامنز اور منرلز کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے ۔مختلف پھولوں کی اقسام کا مرکب ہونے کی وجہ سے اس میں شفائی خصوصیات زیادہ ہوتی ہیں، جبکہ مصنوعی شہد کی مکھیوں کو مصنوعی چھتوں میں مخصوص پھولوں یا فصلوں کے قریب رکھا جاتا ہے۔
اگرچہ مصنوعی شہد بھی غذائیت سے بھرپور ہوتا ہے تاہم اس میں غذائی اجزاء قدرتی سے کم ہوتے ہیں ۔انہوں نے شہد کی مکھیوں کے فوائد بتاتے ہوئے کہا کہ یہ مکھیاں شہد بنانے کے ساتھ ساتھ زرعی پیداوار بڑھانے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ پھلوں اور سبزیوں کی باراوری ممکن بناتی ہیں ،ماحولیاتی توازن میں بھی مکھیوں کا قابل قدر کردار ہے۔
موسمیاتی تبدیلی ،درجہ حرارت میں اتار چڑھاؤ ،کیمیکل سپرے جیسے عوامل شہد کی مکھیوں اور ان کی پیداوار پر منفی اثر ڈالتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہد کی مکھیوں کی بہتر پیداوار کے لیے درجہ حرارت 20 سے 30 ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان ہونا ضروری ہے۔ ان کے لیے موسم بہار سب سے بہتر اور موزوں موسم ہے۔ بارش اور شدید سردیاں اس کی خوراک اور پیداوار کو متاثر کرتی ہیں۔شہد کی پیداوار میں اضافے کےلئے خواتین بھی اپنا کردار ادا کر سکتیں ہیں اور گھروں یا چھتوں پر شہد کی مکھیوں کو پال کر شہد کی صنعت اور ملکی معیشت میں اضافہ کیا جا سکتا یے۔
شہد کی مکھیوں کی اقسام بتاتے ہوئے ڈاکٹر مدثر کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں شہد کی مکھیوں کی اقسام تقریبا 20 ہزار سے زائد ہیں ،جس میں چار اقسام اہم ہیں ۔یورپی مکھی، جنگلی مکھی، چھوٹی مکھی اور ایشین مکھی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ جنوبی پنجاب میں مکھی پال حضرات کی تربیت اور جدید فارمنگ کے طریقوں سے اگاہی کے لیے ایم این ایس زرعی یونیورسٹی سمیت زرعی محکمے، نرسریاں اور مقامی ادارے تربیت اور معاونت فراہمت کر رہے ہیں ۔
اگر کوئی ادارہ یا فرد شہد کا کاروبار کرنا چاہتا ہے تو زرعی اداروں سمیت نرسریاں بھی ابتدائی تربیت، سامان اور مکھیوں کی کالونیاں مہیا کرتی ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ یونیورسٹی خود تجارتی بنیادوں پر مکھیوں کی افزائش یا شہد کی فروخت نہیں کرتی بلکہ یہ سرگرمی تعلیمی اور تحقیقی مقاصد تک محدود ہے ۔ اس کاروبار کے فروغ کے لیے ایم این ایس یونیورسٹی میں ورکشاپس سیمینارز اور ماحولیاتی اثرات کے حوالے سے اگاہی فراہم کی جاتی ہے۔ ڈاکٹر مدثر نے یہ بھی واضح کیا کہ اگر شہد کی مکھیاں دنیا سے ختم ہو جائیں تو انسانی بقا کے لیے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
جیو سوسائٹی آف لندن کے مقالے میں سائنس دانوں کی تحقیق کے مطابق ان مکھیوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے, جس کے باعث غذائی اور ماحولیاتی عدم توازن پیدا ہو سکتا ہے ۔اس صورتحال سے بچنے کےلئے حکومتی اقدامات ناگزیر ہیں۔ شہد کی مکھیوں کو بیماریوں اور سخت موسمی اثرات سے بچانے کےلئے تحفظ ،شہد کی صنعت کے فروغ کےلئے مکھی پال حضرات کو بلا سود قرضے کی فراہمی، کوالٹی کنٹرول لیبارٹریز اور برآمدات کے مراکز کا قیام ترجیحی بنیادوں پر کیا جائے ۔
Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=588376