13.8 C
Islamabad
پیر, فروری 24, 2025
ہومقومی خبریںنوجوان قیمتی اثاثہ ہیں، ملکی ترقی میں ان کے کردار کو فراموش...

نوجوان قیمتی اثاثہ ہیں، ملکی ترقی میں ان کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا، دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پرعزم ہیں، عطااللہ تارڑ

- Advertisement -

لاہور۔23فروری (اے پی پی):وفاقی وزیر اطلاعات، نشریات، قومی ورثہ و ثقافت عطااللہ تارڑ نے کہا ہے کہ نوجوان قیمتی اثاثہ ہیں، ملکی ترقی میں ان کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا، دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، سانحہ اے پی ایس پشاور میں معصوم اور بے گناہ طلبا کو شہید کیا گیا، اس واقعہ کے بعد آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد شروع کیا گیا لیکن بعد میں ایک ایسی حکومت آئی جس نے طالبان کو سپورٹ کیا اور واپس لا کر بسایا، نہتے لوگوں کو مارنے والے دہشت گرد ہوتے ہیں، ان میں کوئی تفریق نہیں ہوتی، دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پرعزم ہیں، تنقید برائے تنقید کی پالیسی کے تحت منصوبوں پر نکتہ چینی نہیں ہونی چاہئے، فیک نیوز کے چیلنج سے نمٹنے کیلئے اجتماعی اقدامات کی ضرورت ہے، بلدیاتی نظام کے بغیر ملکی ترقی ممکن نہیں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کو یہاں ایوان اقبال میں یوتھ کانفرنس میں سوال و جواب کی نشست سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پرصدر یوتھ جنرل اسمبلی فہد شہباز وڑائچ اور سینئر صحافی فرخ شہباز وڑائچ سمیت مختلف تعلیمی اداروں کے طلبا و طالبات کی کثیر تعداد موجود تھی۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے کہا کہ دو قومی نظریہ ایک حقیقت ہے، نوجوانوں کو یہ جاننا ضروری ہے کہ پاکستان کا قیام کیوں ضروری تھا؟ جو قوم ماضی سے نہیں سیکھتی وہ اپنا مستقبل نہیں بنا سکتی، ماضی میں غلطیاں بھی ہوتی ہیں اور قومیں اس سے سبق حاصل کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آزاد ملک کے لئے مسلمانوں نے بے حد مصائب و مشکلات کا سامنا کیا۔

- Advertisement -

تحریک پاکستان اور پاکستان بننے کے بعد پوسٹ مینجمنٹ میں نوجوانوں کا کردار رہا ہے، نوجوانوں کی ملک میں ایک تاریخ ہے، اسے بھولنا نہیں چاہئے، ہماری 60 فیصد آبادی 30 سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے، یہ پاکستان کا مستقبل ہیں، اس ملک کی بنیادوں میں لاکھوں لوگوں کا خون شامل ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ موجودہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں پاکستان میں 7 ارب ڈالر کی ترسیلات آئیں۔ عطااللہ تارڑ نے کہا کہ غزہ، فلسطین اورکشمیر میں مظالم کا نام لیں تو سوشل میڈیا پر سناٹا چھا جاتا ہے، اے آئی اور نئی ٹیکنالوجی کے تحت ان مظالم پر کی جانے والی پوسٹوں پر لائیکس کم ہو جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دو قومی نظریئے کی جتنی ضرورت آج ہے اتنی پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم اس وقت جو ہیں پاکستان کی وجہ سے ہیں، پاکستان ہے تو ہماری سیاست ہے ورنہ ہم اس کے بغیر کچھ نہیں، پاکستان میں تمام اقلیتوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں جبکہ سرحد پار اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک سے سب آگاہ ہیں، وہاں پر اقلیتوں کے ساتھ جو ناروا سلوک کیا جا رہا ہے اور ان کے حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے وہ انتہائی قابل افسوس اور شرمناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں کسی جگہ مفت لیپ ٹاپ نہیں دیئے جاتے، پاکستان میں پہلی مرتبہ نوجوانوں کو 100 فیصد میرٹ پر مفت لیپ ٹاپ دیئے گئے، اس میں کسی کی سفارش نہیں تھی۔ کووڈ کے اندر ورک فرام ہوم یا آن لائن کلاسز کی وجہ سے ہماری معیشت نہیں بیٹھی کیونکہ ہمارے بچوں کے پاس لاکھوں لیپ ٹاپ موجود تھے، اگر ان کے پاس یہ لیپ ٹاپ نہ ہوتے تو دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچنے کا خدشہ تھا۔

عطااللہ تارڑ نے کہا کہ مستقبل کے چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے وژن کی تشکیل قیادت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب 90کی دہائی میں لاہور اسلام آباد موٹر وے بنی تو اس کی شدید مخالفت کی گئی، اسے غیر ضروری کہا گیا، پاکستان میں موٹر وے کی بنیاد انفراسٹرکچر کی ترقی کی جانب اہم پیشرفت تھی، آج اسی موٹر وے کے ذریعے لوگ باآسانی سفری سہولت سے مستفید ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لیپ ٹاپ سکیم کی بھی مخالفت کی گئی، ہونہار طالب علموں کو اعلی تعلیم کے لئے اربوں روپے کے وظائف دے رہے ہیں، دانش سکولوں نے وسائل سے محروم طبقوں کو تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کئے، دانش سکولوں کی مخالفت اشرافیہ لوگوں نے کی۔ انہوں نے کہا کہ راولپنڈی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی پاکستان کا بہترین ادارہ ہے، پورے پاکستان اور خیبر پختونخوا سے لوگ یہاں آتے ہیں، ساڑھے 12 سال میں خیبر پختونخوا میں ایک اچھا ہسپتال کیوں نہیں بن سکا؟ سیاسی نعرے لگانے والے بتائیں کہ آپ نے کتنے کڈنی ٹرانسپلانٹ یونٹ بنائے، کتنے طلباکو سکالر شپس اور لیپ ٹاپ دیئے۔

انہوں نے کہا کہ تنقید برائے تنقید کی پالیسی منصوبوں پر نکتہ چینی کیلئے نہیں ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ زندگی کا تجربہ ہے کہ مثبت سوچ سے ہی اچھے نتائج نکلتے ہیں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ میری جماعت نے مجھے اتنی آزادی دی ہے کہ میں نوجوانوں کے بارے میں کھل کر بات کر سکوں۔ انہوں نے کہا کہ نوجوان قیمتی اثاثہ ہیں، انہوں نے ہی ملک کا نظام چلانا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ورلڈ اکنامک فورم میں جب پوچھا گیا کہ دنیا کو سب سے بڑا خطرہ کیا ہے، ورلڈ لیڈرز نے کلائمیٹ چینج، نیوکلیئر وار کا ذکر نہیں کیا بلکہ انہوں نے اس دور کا سب سے بڑا چیلنج مس انفارمیشن کو قرار دیا کیونکہ یہ ذہن سازی کرتی ہے اور لوگوں کو ڈپریشن کا شکار کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا یہ مزاج بن چکا ہے کہ ہم نے ہر بات شکوہ سے شروع کرنی ہے۔

توقع اچھی رکھیں تو رزلٹ اچھا نکلے گا۔ ایک اور سوال کے جواب میں عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ ہماری سوسائٹی میں مینٹور شپ کا تصور ختم ہو گیا ہے، زمانہ طالب علمی میں والدین اور رشتہ داروں کا پریشر ہوتا ہے جبکہ عملی زندگی میں کمانے اور دیگر ذمہ داریوں کا دبا بڑھ جاتا ہے جس سے نوجوانوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گائیڈنس اور کونسلنگ کیلئے مینٹور شپ کا ہونا بہت ضروری ہے۔ ایک اور سوال پر وفاقی وزیر نے کہا کہ ملک میں دہشت گردی کا ناسور آج بھی موجود ہے، جنگوں میں بھی قوانین ہوتے ہیں لیکن دہشت گرد کسی رول یا قانون کو فالو نہیں کرتا، جب اسے سمجھ نہیں آتی کہ دشمن کو کس طرح نشانہ بنانا ہے تو وہ پھر بچوں کو نشانہ بناتا ہے، دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، اس میں کوئی ابہام نہیں کہ سانحہ اے پی ایس دہشت گردوں کی کارروائی تھی۔

آج یہ بلوچستان میں بھی دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ سانحہ اے پی ایس دہشت گردوں کی مذموم کارروائی تھی، اس میں جو بھی ملوث تھے انہیں کیفر کردار تک پہنچایا گیا۔ سانحہ اے پی ایس کے بعد آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد شروع کیا گیا، پورے ملک میں امن قائم ہوا لیکن بعد میں ایک ایسی حکومت آئی جس نے گڈ طالبان اور بیڈ طالبان کی بحث شروع کی، کہا گیا کہ یہ بہت اچھے لوگ ہیں، یہ آپ کے دوست ہیں، ان کا اور آپ کا مذہب ایک ہے، اس حکومت نے طالبان کو سپورٹ کیا، انہیں واپس لا کر سیٹل ایریاز میں بسایا۔ انہوں نے کہا کہ اے پی ایس حملہ کے بعد ایک تھیوری بنائی گئی، ٹی ٹی پی کے سپورٹرز چاہتے تھے کہ اس ملک میں ابہام پیدا کیا جائے، اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹی ٹی پی نے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کیں، یہ تنظیم پاکستان کی آئیڈیالوجی کے خلاف اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔

یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اے پی ایس پر حملہ کیا، ملک میں بدامنی پھیلائی، انہوں نے بچوں کو شہید کیا، یہ کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں، یہ برے لوگ ہیں، ان کا خاتمہ کر کے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ترقی تب کرنی ہے جب دہشت گردی کا خاتمہ ہوگا۔ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے طالب علم نے اپنی ٹیم کی کامیابیوں کی تفصیلات بتاتے ہوئے ہیک ہونے والے اکاونٹس کا مسئلہ حل کرنے کا مطالبہ کیا جس پر وفاقی وزیر نے یقین دلایا کہ ان کا مسئلہ 72 گھنٹوں کے اندر حل کر دیا جائے گا۔ انسانی اعضاکی خریدوفروخت کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر نے کہا کہ ماضی میں آرگن ٹرانسپلانٹ کے حوالے سے پنجاب میں صورتحال خراب تھی، غریبوں کے گردے نکال کر فروخت کر دیئے جاتے تھے اور اس گھنا ئونے جرم میں مختلف لوگ ملوث تھے حکومت نے اس مسئلے کی روک تھام کیلئے ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹ اتھارٹی قائم کی جس سے اس مسئلہ پر قابو پانے میں کافی مدد ملی۔

انہوں نے کہا کہ باقی صوبوں میں بھی یہ اتھارٹی قائم ہونی چاہئے۔ فیک نیوز کی روک تھام کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر نے کہا کہ فیک نیوز کے تدارک کے لئے صحافیوں کی ایک باڈی تشکیل دی جانی چاہئے، اس مسئلہ پر عالمی کانفرنسوں میں بھی بات کی۔ صحافیوں کی ایک باڈی بنائی جا سکتی ہے جو فیک نیوز پر قابو پانے کیلئے کام کر سکے۔ اس پر کام کیا جا رہا ہے۔ 26 ویں آئینی ترمیم حوالے سے انہوں نے کہا کہ صرف ایک جماعت کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں کا اس پر اتفاق رائے تھا، پیکا قانون کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اگر اس پر اعتراضات ہیں تو بات ہو سکتی ہے۔

لوکل گورنمنٹ کے حوالے سے ایک سوال پر وفاقی وزیر نے کہا کہ لوکل گورنمنٹ کے بغیر یہ ملک نہیں چل سکتا ، گراس روٹ لیول کے بغیر کوئی الیکشن نہیں لڑ سکتا لیکن 2018 میں پی ٹی آئی حکومت نے لوکل گورنمنٹ سسٹم کو ختم کر دیا۔ انہوں نے کہاکہ سیاسی جماعتوں کو یہ طے کرنا ہو گا کہ جو بھی حکومت آئے وہ لوکل باڈیز کو نہیں چھیڑے گی۔

Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=565077

- Advertisement -
متعلقہ خبریں
- Advertisment -

مقبول خبریں