وزیراعظم عمران خان کا سٹیٹ بینک کی کم لاگت کے گھروں کی تعمیر کے لئے فنانس پالیسی کے اجراء کی تقریب سے خطاب

145

اسلام آباد ۔ 11 مارچ (اے پی پی) وزیراعظم عمران خان نے غربت کے خاتمہ اور معاشی ترقی کے لئے 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کے پروگرام کو حکومت کا فلیگ شپ منصوبہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ حکومت کی سوچ گزشتہ حکومتوں سے الگ ہے، تخفیف غربت کے لئے کم لاگت گھروں کی تعمیر اسی سوچ کا ایک اہم جزو ہے، اسٹیٹ بینک کی طرف سے کم لاگت کے گھروں کی تعمیر کے لئے قرض کی فراہمی میں دی جانے والی مراعات ایک بڑا قدم ہے، اس منصوبے سے تقریباً 40 متعلقہ تعمیراتی صنعتیں فعال ہوں گی، روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہوں گے، معیشت ترقی کرے گی، حکومت شہروں کے پھیلائو کی بجائے کثیر المنزلہ عمارات کی تعمیر کو ترجیح دے رہی ہے۔ وہ پیر کو سٹیٹ بینک کی کم لاگت کے گھروں کی تعمیر کے لئے فنانس پالیسی کے اجراء کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ تقریب سے وزیر خزانہ اسد عمر، گورنر سٹیٹ بینک طارق باجوہ نے بھی خطاب کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے کم لاگت والے گھروں کی فنانسنگ کے لئے مراعات دینے پر گورنر اسٹیٹ بینک کو سراہتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت کی سوچ پرانی حکومتوں سے مختلف ہے، پہلے سوچ بدلتی ہے اور پھر اس کے مطابق عمل کیا جاتا ہے، جب سے ہماری حکومت اقتدار میں آئی ہے ہماری کوشش رہی ہے کہ ایسی پالیسیاں بنیں جس سے ملک کے نچلے طبقے کو اوپر لایا جا سکے اور غربت کا خاتمہ ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ چین نے بھی اسی طرح کی پالیسیاں اپنائیں، انہوں نے 30 برسوں میں 70 کروڑ افراد کو غربت سے نکالا اور یہ کامیابی انہوں نے ایک منصوبے کے تحت حاصل کی۔ چین میں جو بھی پالیسی بنائی جاتی تھی سوچ سمجھ کر بناتے تھے۔ وزیراعظم نے بتایا کہ ہمیں دورہ چین کے دوران بتایا گیا کہ چین نے کس طرح لوگوں کو غربت سے نکالا۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کم لاگت گھروں کی تعمیر اسی سوچ کا ایک جزو ہے کہ ہم نے غربت کیسے کم کرنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا اپنا گھر ہو۔ پاکستان کے اندر ایک بہت بڑی آبادی اپنا گھر حاصل نہیں کر سکتی کیونکہ زیادہ تر تنخواہ دار لوگ ہیں، ان کے پاس اتنی نقد رقم موجود نہیں ہوتی کہ وہ گھر خرید سکیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ ایک اہم شروعات ہے۔ اس ضمن میں وزیراعظم نے لاہور ہائی کورٹ میں زیر التواء فور کلوژر کیس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے لئے یہ بہت اہم ہے کہ اس کیس کا فیصلہ جلد ہو کیونکہ جب تک ”فور کلوژر” قوانین نہیں بنتے، ہمارے لئے مشکل ہے کہ ان لوگوں کو گھر دلوائیں جن کے پاس نقد رقم نہیں ہے۔ اگر لوگوں نے قرضے لینے ہیں تو یہ بہت ضروری ہے کہ جس طرح سٹیٹ بینک نے فنانس کی سہولت دی ہے اسی طرح ساتھ ساتھ قانون بھی اجازت دے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں ہائوس فنانسنگ کے لئے جی ڈی پی کی شرح 0.2 فیصد ہے جو بھارت کے اندر 10 فیصد، ملائیشیا میں 30 فیصد جبکہ امریکہ اور انگلینڈ میں 80 فیصد سے زائد ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک ہمارے پاس عام لوگوں جن کے پاس نقد رقم موجود نہیں ہے، کے لئے رقوم دستیاب نہیں ہوں گی، ہم اس وقت تک اپنے ہدف کو حاصل نہیں کر سکتے اور ہمیشہ ایسا ہی ہوتا رہے گا کہ ایک چھوٹا سا طبقہ اچھے اور خوبصورت گھروں میں رہے گا اور عام لوگوں کے لئے مشکلات ہی ہوں گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ گورنر اسٹیٹ بینک نے اس پروگرام کو کامیاب بنانے کے لئے قرض کی فراہمی کیلئے بینکوں کو جو مراعات دی ہیں، وہ ایک بڑا قدم ہے۔ اسٹیٹ بینک نے چھوٹے کسانوں کے لئے بھی رقوم کی دستیابی کو ممکن بنایا ہے۔ چھوٹے کسان نقد رقم موجود نہ ہونے کی وجہ سے بڑے کسانوں کے آگے مجبوری کا شکار ہوتے ہیں۔ اسٹیٹ بینک نے چھوٹی صنعتوں کے لئے بھی مراعات پیش کی ہیں، یہ صنعتیں پاکستان کی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ چھوٹی صنعتوں کے لئے بینکوں سے قرض حاصل کرنا کافی مشکل ہوتا ہے جبکہ اس کے مقابلہ میں بڑی اور کامیاب صنعتوں کے لئے قرض کا حصول بہت آسان ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک نے فاٹا اور قبائلی علاقوں کے لئے بھی خصوصی پیکیج کا اعلان کیا جو خوش آئند ہے۔ ماضی میں قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت تباہی ہوئی۔ وزیراعظم نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں لوگوں کی سب سے زیادہ ضرورت ان کے لئے گھر ہے۔ انہوں نے اسٹیٹ بینک کی جانب سے ٹرانس جینڈرز (خواجہ سرائوں) کیلئے بھی اس ضمن میں مراعات فراہم کرنے کے اقدام کو سراہا، مجھے خوشی ہے کہ اس پروگرام میں ان کو شامل کیا گیا ہے۔ انہوں نے اسٹیٹ بینک کی جانب سے بیوائوں اور یتیم افراد کے لئے مراعات پر بھی مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہماری سوسائٹی ایک بڑے عظیم خواب کا نام تھا، ہم ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے اور جب مسلمان فلاحی ریاست کا سوچتا ہے تو مدینہ کی ریاست کا سوچتا ہے۔ ہم اس آئیڈیا سے اتنے دور چلے گئے ہیں کہ یہ صرف طاقت والوں کا پاکستان بن چکا تھا لیکن اب ہم اس تصور کی طرف جا رہے ہیں اور یہ شروعات ہیں۔ اس سے صرف یہی نہیں کہ لوگوں کو گھر ملے گا، ان کی اپنی چھت ہوگی بلکہ اس سے 40 صنعتیں بھی ترقی کریں گی اور معیشت پھلے پھولے گی اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ روزگار دینا پاکستان میں بہت بڑا چیلنج ہے، کم لاگت کے گھروں کا پروگرام ہمارا فلیگ شپ منصوبہ ہے، اس سے ہماری معیشت بھی مضبوط ہوگی اور یہ 40 دیگر منسلک صنعتوں کو بھی فعال بنائے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ نوجوانوں کے روزگار کا ہے، ہماری 60 فیصد آبادی 30 سال کی عمر سے کم ہے، اس پروگرام سے اس مسئلے کے حل میں بھی مدد ملے گی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ کچی آبادیوں کے بارے میں آج تک کسی نے نہیں سوچا، وہاں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے، گندگی ہے، اور مکینوں کے پاس مالکانہ حقوق بھی نہیں ہیں۔ ہم کچی آبادیوں کے اندر ایک پروگرام لا رہے ہیں کہ وہاں پر ہم کمرشل سیٹ اپ کے لئے ڈویلپرز کو راغب کریں گے اور اسی رقم سے وہاں لوگوں کیلئے فلیٹس تعمیر کئے جائیں گے اور ان کو سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ ہم اس پروگرام کو اسلام آباد میں شروع کر رہے ہیں اور جن صوبوں میں ہماری حکومتیں ہیں وہاں ان کو بھی اس طرف راغب کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے شہروں کو پھیلنے نہیں دینا، ہم ان کو کثیر المنزلہ عمارات کے ذریعے اوپر لے کر جائیں گے۔ شہر جس طریقے سے پھیلتے جا رہے ہیں ہمارا سارا گرین ایریا خراب ہو رہا ہے، اس سے مستقبل میں ہماری فوڈ سیکورٹی پر بھی بہت برا اثر پڑے گا۔ اس کے علاوہ ماحول پر بھی بہت برا اثر ہوگا کیونکہ شہر پھیلتے گئے تو سب جانتے ہیں کہ پاکستان جو گلوبل وارمنگ میں آٹھویں نمبر پر ہے، ماحولیاتی اعتبار سے بری طرح متاثر ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اسلام آباد کو ماڈل سٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم نے ان ایریاز کی نشاندہی کی ہے جن میں ایوی ایشن کے باعث بلند عمارتیں نہیں بن سکتیں، تاہم دیگر جگہوں پر کثیر المنزلہ عمارات بنانے پر پابندی نہیں ہو گی، ہم گرین ایریاز کو محفوظ بنائیں گے، کچی آبادیوں میں مالکانہ حقوق دیں گے اور ان کے لئے فلیٹس کی تعمیر کے ساتھ ساتھ کمرشل سینٹرز بنائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ شروعات ہیں۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ گورنر اسٹیٹ بینک نے ایک ایسی جامع پالیسی کا اعلان کیا ہے جس کی معاشرے اور معیشت کو اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ کم آمدنی والے طبقے کے لئے سہولیات بالخصوص چھت کی فراہمی ہمارے منشور کا بھی حصہ ہے، جن کے پاس وسائل نہیں ہیں ان کو زندگی میں ضروریات کو پورا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاشرے اور ریاست کو لوگوں کی بنیادی ضروریات زندگی پوری کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ اپنا گھر ہر انسان کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہائوسنگ کے لئے مختلف اعداد و شمار ہیں لیکن ایک کروڑ گھروں کی کمی کا سامنا ہے۔ ہم نے جو ہدف قائم کیا تھا اس کے لئے یہ تیاری ہو رہی تھی تاکہ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے فنانسنگ کی جائے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان خود براہ راست سبسڈی دے رہا ہے۔ اس سے زیادہ اہم چیز ہے کہ بینکوں کو مراعات دی جا رہی ہیں۔ اس حوالے سے مخصوص شعبوں کو مراعات دی جا رہی ہیں، اس ضمن میں لچک پیدا کی جا رہی ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ اسٹیٹ بینک نے ریگولیشنز میں جو لچک پیدا کی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے سسٹم بہتر کیا ہے۔ ہم نے ٹیکس ریٹ کم کیا ہے، مالیاتی اقدامات اٹھائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بینکوں کو ترغیب دینے کے لئے یہ مراعات دی گئی ہیں۔ مجھے امید ہے کہ بینکس اسی مراعات میں اپنی کارکردگی دکھائیں گے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ہائوسنگ کے شعبے کی ترقی سے متعدد دیگر صنعتیں بھی فعال ہوں گی، پانچ سال کے اندر ایک کروڑ روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ انتخابی نعرہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ آئین میں لکھا ہے کہ روزگار کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہائوسنگ سیکٹر کے اندر ملازمت کے بے تحاشا مواقع ہوتے ہیں، اقتصادی نمو ہوتی ہے، سماجی خدمت کے حوالے سے کارپوریٹ شعبے کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ایسی سہولیات فراہم کرے لہذا اقتصادی نکتہ نظر کے حوالے سے ریاست پوری کوشش کرے گی کہ چھت فراہم کرے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ کوئی بھی حکومت ہو جو جمہوریت پر یقین رکھتی ہے، اسے اس قسم کے کام کرنے چاہئیں اور یہ آئین میں بھی درج ہے۔ انہوں نے گورنر اسٹیٹ بینک کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اپنی ذمہ داری پوری کی ہے، امید ہے کہ بینک اس ضمن میں پیش کردہ مراعات سے بھرپور فائدہ اٹھائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہائوسنگ سکیموں کی تیاری شروع ہو چکی ہے، وفاقی دارالحکومت میں ڈیڑھ لاکھ گھروں کی تعمیر کے علاوہ پنجاب میں 12 شہروں کو منتخب کیا جا چکا ہے، تین پر کام کا آغاز ہونے جا رہا ہے، بہت جلد ان سکیموں پر کام شروع کر دیا جائے گا۔ قبل ازیں گورنر سٹیٹ بینک نے کم لاگت کے گھروں کی تعمیر کے لئے سٹیٹ بینک کی فنانس پالیسی کے خدوخال بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ پالیسی وزیراعظم کے وژن سے ہم آہنگ ہے جس کا مقصد کم آمدنی والے طبقے کے لئے پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہائوسنگ نہ صرف سماجی ضرورت بلکہ معیشت کی ترقی اور روزگار کی فراہمی کا بنیادی ستون بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مائیکرو فنانس کے شعبے میں کم بچت کی شرح کا مسئلہ درپیش ہے لہذا بینک پالیسی کے تحت کم لاگت کے گھروں کی تعمیر کے لئے قرض فراہم کرے گا، اس سے سیمنٹ، سریا، گلاس سمیت کم از کم 40 متعلقہ صنعتیں فعال ہوں گی، روزگار کے بڑے پیمانے پر مواقع پیدا ہوں گے اور اس سے معاشی سرگرمیوں کو تقویت ملے گی اور شرح نمو میں اضافہ میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس فنانس پالیسی کے تحت چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں اور دیگر بینکوں کو مراعات دی جا رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 30 لاکھ روپے تک کا یونٹ کم لاگت کا گھر تصور ہوگا، دیہی علاقوں میں کورڈ ایریا کی کوئی قید نہیں ہوگی۔ شہری علاقوں میں 850 مربع فٹ کی پابندی رکھی گئی ہے، اس میں قرض کا حجم 27 لاکھ روپے رکھا گیا ہے۔ بینکوں کے لئے اچھی مراعات ہیں، ان کی لیکویڈیٹی میں بہتری آئے گی۔ طارق باجوہ نے کہا کہ غریب آدمی کے لئے پیشگی رقوم کی ادائیگی کی گنجائش نہیں ہوتی اس لئے صرف 10 فیصد اپ فرنٹ دینے کی گنجائش دی گئی ہے اور 90 فیصد تک قرض ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ کم لاگت فنانسنگ میں کوئی پابندی نہیں، بینک کوئی بھی رقم قرضہ دے سکتے ہیں، لو کاسٹ ہائوسنگ میں رسک ریٹ کو 35 فیصد سے کم کر کے 25 فیصد کر دیا ہے تاکہ بینکوں کو ترغیب دی جاسکے کہ ان کی لیکویڈیٹی میں اضافہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ روایتی اور اسلامی دونوں طرز بینکوں کے لئے مراعات دی جا رہی ہیں، مائیکرو فنانس کے ادارے پانچ لاکھ روپے سے زیادہ قرضہ نہیں دے سکتے تھے۔ اب یہ رقم پانچ لاکھ روپے سے بڑھا کر 10 لاکھ روپے کر دی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بینکوں کے فارمز کو بھی آسان کر دیا ہے تاکہ قرض کے لئے درخواست کو بھی آسان بنایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہائوسنگ فنانس کلی طور پر 1.7 فیصد کریڈٹ دیتا ہے، اس کو چار گنا بڑھا دیں گے اور چھ فیصد تک کر دیں گے، اس حوالے سے ہم ہر بینک کو علیحدہ علیحدہ ٹارگٹ دیں گے اور ان کے مجموعی بزنس پلان کو بھی بہتر کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ سٹیٹ بینک مخصوص طبقات کے لئے خصوصی فنانسنگ سہولت کا اجراء کر رہا ہے جن میں بیوگان، یتیم، شہداء کے بچے، خصوصی افراد، خواجہ سراء شامل ہیں۔ ان کے علاوہ وہ طبقے جو پسے ہوئے ہیں اور کم مراعات یافتہ ہیں ان کے لئے اسٹیٹ بینک سکیم کا اجراء کر رہا ہے، یہ قرض کی سہولت نئے گھروں کے لئے ہوگی جن کے پاس پہلے کوئی گھر نہ ہو، انہوں نے گھر کی تعمیر کے لئے قرضہ نہ لیا ہو، اس کی خرید و فروخت اور کرایہ پر دینے پر پابندی ہوگی کیونکہ یہ خصوصی طبقات کے لئے اسکیم ہوگی۔ ساڑھے بارہ سال تک اس قرضہ کی معیاد ہوگی اور سٹیٹ بینک کی طرف سے بینکوں کو 100 فیصد ری فنانسنگ کی جائے گی۔ سٹیٹ بینک کی ری فنانس کی شرح ایک فیصد جبکہ کسٹمر ریٹ پانچ فیصد ہو گا اور ساڑھے 12 سال کے لئے یہ شرح فکس کر دی گئی ہے۔ سٹیٹ بینک خصوصی طبقات کے لئے فنانسنگ کی سہولت کے تحت ایک لاکھ تک گھروں کو فنانس فراہم کرے گا۔ گورنر سٹیٹ بینک نے کہا کہ اس پالیسی پر ملنے والی آراء کے مطابق اس میں تبدیلی لاتے رہے ہیں گے تاکہ وقت کے تقاضوں کے مطابق سے ڈھالا جا سکے اور اس میں بوقت ضرورت تبدیلی لائی جا سکے۔